
ملتان ٹیسٹ: اسپن پچز جیت کا فارمولا یا فاسٹ بولنگ کی تباہی؟
پاکستان کرکٹ ٹیم نے ملتان ٹیسٹ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف جس قسم کی پچ بنائی اس نے ٹیسٹ میچ تو تین دن میں ختم کردیا لیکن اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑدیے۔
ایک کھردری پچ جس پر پہلے دن ہی اس قدر توڑ پھوڑ ہوچکی تھی کہ اسپن بولرز کو کسی محنت اور کوشش کے وکٹیں مل رہی تھی جیت کے لیے ترسی ہوئی پاکستانی ٹیم نے انگلینڈ کے خلاف سیریز سے جیت کا فارمولا اسپن پچز کو سمجھ لیا اور ویسٹ انڈیز کی طفل مکتب ٹیم کو بھی اسی جال میں جکڑ لیا۔
ویسٹ انڈیز جو کبھی کرکٹ میدان میں دہشت کی علامت سمجھی جاتی تھی اس کے بولرز کی بولنگ کے کھیلتے ہوئے بڑے بڑے بلے بازوں کا جگر پانی ہوجاتا تھا اور بلے بازوں کو بولنگ کرتے ہوئے بولرز لائن لینتھ بھول جاتے تھے لیکن دو دہائیوں سے وہی ویسٹ انڈیز ایک گری پڑی ٹیم بن گئی ہے اور راستے کا پتھر سمجھ کر جس کا دل چاہتا پے ٹھوکریں مارتا ہوا گزر جاتا ہے نہ بولرز میں مارشل ہولڈنگ اور والش جیسی کالی آندھیاں ہیں اور نہ رچرڈز گرینیج اور لارا جیسے جی دار بلے باز ہیں جو جیسی بھی پچ ہو اپنی دہشت دکھادیتے تھے۔
ایک ناتجربہ کار اور بجھی بجھی سی ویسٹ انڈیز کی ٹیم جب پاکستان کے دورے پر پہنچی تو اس کا حال دیکھتے ہوئے سب کا خیال تھا کہ پاکستان کرکٹ مینیجمنٹ اپنی دوسری صف کے کھلاڑیوں کو موقع دے گی جو ہمیشہ بینچ پر بیٹھے رہ جاتے تھے جو ڈومیسٹک میں رنز کے انبار لگاتے ہیں وکٹین لیتے ہیں انھیں موقع ملے گا۔ لیکن مینجمنٹ نے پہلے تو پوری طاقت جھونک دی اور پھر ایسی پچز بنادی جن پر آسٹریلیا اور انڈیا کے قدم پھسل جائیں وہاں ویسٹ انڈیز کیا کرتی ایسی پچز پر وہ تو لمحوں میں گر پڑے۔
پاکستان کے پاس تو دو تجربہ کار اسپنرز تھے لیکن ویسٹ انڈیز کے پاس تو تیسرے درجہ کے اسپنرز تھے وہ بھی پاکستانی بیٹنگ کو پریشان کرگئے۔
جومل واریکن معمولی سے اسپنر ہیں لیکن اپنی سیدھی گیندوں پر سات وکٹ لے گئے، بابر اعظم اور سعود شکیل جیسے بلے باز بھی پریشان تھے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جیت کا بس یہی فارمولا ہے؟ اس سوال نے کرکٹ حلقوں کو بے چین کررکھا ہے، ہر کرکٹ تبصرہ نگار اس بات پر بحث کررہا ہے کہ کیا یہ حکمت عملی کرکٹ کو ترقی دے گی؟
اگرچہ پاکستان کے محمد رضوان نے اس حکمت عملی کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہر ملک کو اپنی سچویشن کے مطابق پچز بنانے کا حق حاصل ہے کیا ہمیں آسٹریلیا میں فاسٹ پچز پر نہیں کھیلنا پڑتا ہے؟
شاید ان کا موقف درست ہے لیکن آسٹریلیا میں ہر گراؤنڈ کی پچ الگ ہے اور وہ کبھی تبدیل نہیں ہوتی، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ میں پچز پر ٹیم کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا اور ہر گراؤنڈ کی پچ کی اپنی تاریخ ہے۔
ٹیسٹ میچ کا وقت سے پہلے خاتمہ
ٹیسٹ میچ پانچ دن پر مشتمل ہوتا ہے لیکن گزشتہ چند سالوں سے کرکٹ کا جو مزاج بن گیا ہے اس کے بعد اکثر ٹیسٹ میچز چوتھے دن ہی ختم ہوتے رہے ہیں میچز کا جلد ختم ہوجانا دراصل کرکٹ میں دلچسپی کا عنصر ختم ہورہا ہے، انگلینڈ اور آسٹریلیا میں وقت سے پہلے میچ ختم ہونے پر جزوی طور پر ٹکٹ کی رقم واپس کردی جاتی ہے جو پاکستان میں شاید کبھی ممکن نہ ہو۔
پاکستان کا اثاثہ فاسٹ بولنگ خطرے میں
ایسی پچز بننے کے بعد فاسٹ بولرز کے لیے جگہ تنگ ہوتی جارہی ہے، ملتان ٹیسٹ میں واحد فاسٹ بولر خرم شہزاد تھے جنہوں نے پورے میچ میں فقط ایک اوور کیا۔
فاسٹ بولنگ کسی بھی ٹیم کی شان ہوتی ہے، ان کا طویل رن اپ، فٹنس لیول اور جدت پسندی قابل دید ہوتی ہے جو نئے فارمولے کے بعد شاید عنقاہوجائے۔
کیا موجودہ اسپنرز کافی ہیں؟
ملتان ٹیسٹ کے بعد ایک سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا اسپن ہچز کی ترکیب کے بعد اسپن بولنگ میں ہم خود کفیل ہیں؟ ساجد خان اور نعمان علی فرنٹ لائن کے اسپنرز ہیں لیکن اگر ان کابغور جائزہ لیا جائے تو دونوں اعلیٰ پائے کے اسپنرز نہیں ہیں ساجد خان آف بریک بولر ہیں لیکن وہ پچ کے محتاج ہیں اگر گرین اور سیدھی پچ ملے تو وہ بریک نہیں کرسکتے ان کے پاس ورائٹی بھی نہیں ہے۔
اسپن پچز کو جیت کا فارمولا بنا کر میچ اور سیریز تو جیت لیے جارہے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایسی پچز سے توازن ختم ہورہا ہے اور زیادہ دن اگر یہی حکمت عملی رہی تو فاسٹ بولنگ کا دور متاثر ہوجائے گا اور رفتہ رفتہ پاکستان ٹیم اس نہج پر پہنچ جائے گی جہاں سے واپس پلٹنا مشکل ہوگا۔
یہی غلطی ستر کی دہائی میں انڈیا نے کی تھی جس کو سنبھالنے میں پھر برسوں لگ گئے اور وقت کے ساتھ انڈیا نے سبق سیکھا کہ ایک فارمولے سے گھر میں تو جیت سکتے ہیں لیکن گھر سے باہر نہیں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News