
2024 ،پاکستان کھیلوں کے میدان میں بھی پیچھے رہ گیا
آپ جب یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے تو سال 2024 کا آخری سورج اپنے غروب کا سفر تیزی سے طے کررہا ہوگا اور کچھ ہی دیر بعد مغرب سے پھیلنے والی شام کا عروج شب کی تاریکیوں میں تبدیل ہوگا تو ڈوبتا ہوا سورج سال رواں میں ملنے والی ناکامیوں اور جزوی کامیابیوں کی داستان رقم کرکے غروب ہوجائے گا لیکن اگلے دن اپنے تاب وتاب سے نئے سال کا سورج طلوع ہوگا تاہم پاکستان اسپورٹس کا سورج نجانے کب طلوع ہوگا۔
سیاست کے سمندر سے اٹھنےوالے مدوجزر نے جہاں وطن عزیز میں افراتفری اور بے یقینی کی کیفیت قائم رکھی وہیں کھیل کے میدان میں بھی زیادہ بہتری نہ آسکی کھیل کے میدان میں بھی سیاست نے قدم جمائے رکھے اور باصلاحیت کھلاڑیوں راستہ روکا تو سفارشی کے لیے دروازے وا رکھے۔
نیزہ بازی
نیزہ بازی ایک منفرد اور غیر مقبول کھیل ہے جس سے اہل پاکستان کم ہی آشنا ہیں۔ اگر ارشد ندیم یہ کھیل نہ کھیلتے تو شاید لوگوں کو ادراک بھی نہ ہوتا کہ اس کے مقابلے ہوتے ہیں۔ ارشد ندیم نے اس سال پاکستان کے لیے تمام کھیلوں میں واحد سونے کا تمغہ حاصل کیا۔
انہوں نے رواں سال پیرس اولمپکس میں 92.97 میٹر دور نیزہ پھینک کر گولڈ میڈل حاصل کیا۔ وہ تمام بڑے ٹورنامنٹ میں گولڈمیڈل جیت چکے ہیں اور اولمپک میں وہ واحد پاکستانی تھے جنہیں فائنل تک پہنچنے کا موقع ملا اور جیت بھی ملی۔ ارشد ندیم کی یہ کارکردگی اس لحاظ سے بہت زبردست ہے کہ ملک میں اس کی تربیت اور مقابلوں کے کوئی ادارے موجود نہیں ہیں۔
کرکٹ
پاکستان میں سب سے زیادہ کھیلے اور دیکھے جانے والا کھیل کرکٹ سال کے شروع میں اکھاڑ پچھاڑ اور پھر شکست وریخت کا منظر پیش کرتا رہا۔ پی سی بی کی صدارت سے لیکر ٹیم کی کپتانی تک سب ہی مسند اقتدار کی جنگ لڑتے رہے۔ پی سی بی کی مسند پر تو محسن نقوی نے اپنے قدم مضبوطی سے جما بھی لیے اور مستحکم کرلیے لیکن ٹیم کی کپتانی میوزیکل چیئر بنی رہی۔ جہاں جس کا بس چلا وہ اسے اپنے حق میں استعمال کرتا رہا لیکن قیادت کا ہما شان مسعود کے سر سے نہ ہٹ سکا۔
سال کا آغاز آسٹریلیا میں قادر بینو سیریز کے آخری ٹیسٹ سڈنی سے ہوئی ۔ سڈنی سے پاکستان کی کچھ خوشگوار یادیں وابستہ ہیں لیکن وہ یادیں اب ریکارڈ بک میں تو موجود ہیں لیکن عملی طور پر شاذ وناذ ہی نظر آتی ہیں۔ پاکستان سڈنی ٹیسٹ یکطرفہ طور پر ہار گیا۔
پاکستان نے اس سال صرف سات ٹیسٹ میچز کھیلے جن میں سے دو میں جیت اور پانچ میں شکست ہوئی۔
جنوری کے پہلے ہفتے کے بعد اگست تک پاکستان ایک بھی ٹیسٹ میچ نہیں کھیل سکا اگست میں بنگلہ دیش ٹیم جب پاکستان کے دورے پر دو ٹیسٹ میچ کھیلنے آئی تو لوگوں کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔
راولپنڈی میں ہونے والے دونوں ٹیسٹ میچ پاکستان ہار گیا۔ یہ شکست اس قدر غیر متوقع اور بدترین تھی کہ کیون پیٹرسن کو لکھنا پڑا۔ کیا پاکستان میں کرکٹ ختم ہوگئی؟
اس سیریز میں پاکستان نے غیر روایتی پچ بناکر فاسٹ بولرز کو کھلایا۔ وہ حکمت عملی ناکام ہوگئی اور بنگلہ دیش نے پہلی دفعہ پاکستان کے خلاف ٹیسٹ میچ اور سیریز جیت لی۔
اکتوبر میں جب انگلینڈ نے پاکستان کا دورہ کیا تو ملتان میں تین ٹیسٹ میچ کھیلے جس میں سے دو میں جیت کر پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف سیریز جیت لی۔
اس سیریز کے ہیرو پاکستان کے اسپنرز ساجد خان اور نعمان علی تھے۔ جنہوں نے انگلینڈ کو چاروں خانے چت کردیا۔
پاکستان کا آخری ٹیسٹ میچ گزشتہ دنوں سنچورین میں جنوبی افریقہ کے خلاف تھا۔ جو آخری لمحوں میں پاکستان کے ہاتھ سے نکل گیا ورنہ محمد عباس کی بولنگ نے جیت کے ساحلوں سے قریب کردیا تھا۔
ٹیسٹ میچ میں انفرادی کارکردگی میں سعود شکیل، سلمان علی آغا، محمد رضوان ،محمد عباس اور ساجد خان آگے نظر آتے ہیں۔ سعود نے سب سے زیادہ 544 رنز بنائے جبکہ ساجد خان نے سب سے زیادہ 22 وکٹ لیے۔
محدود اوورز کے ایک روزہ میچوں میں پاکستان کی کارکردگی نسبتاً بہتر رہی۔ پاکستان نے اس سال 9 میچ کھیلے جن میں سے 7 میں فتح اور دو میں شکست ہوئی ۔ پاکستان نے سال کے آخر میں تین سیریز کھیلیں۔
آسٹریلیا کے خلاف آسٹریلیا میں تین میچوں کی سیریز میں دو میچ جیت کر پاکستان نے پہلی دفعہ سیریز جیت لی۔ یہ عالمی کرکٹ میں ایک زبردست کارکردگی تھی۔
اس کے بعد زمبابوے کے خلاف سیریز میں تین میں سے دو میچ جیت کر سیریز جیت لی۔ تاہم ایک کم معیار کی ٹیم سے شکست نے بہت سے سوالات اٹھادئیے۔
پاکستان نے اگلی سیریز اور سال کی آخری سیریز جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلی اور تمام تینوں میچ جیت لیے۔ یہ آسٹریلیا کے بعد دوسری بڑی کامیابی ہے۔
ایک روزہ میچوں کے لیے محمد رضوان کو کپتان بنایا گیا جو سودمند رہا۔ انفرادی طور پر بیٹنگ میں صائم ایوب سب سے زیادہ کامیاب رہے۔ انہوں نے تین سنچریوں کی مدد سے 515 رنز بنائے جبکہ بولنگ میں شاہین شاہ آفریدی نے سب سے زیادہ 14 وکٹ حاصل کیے۔
ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں پاکستان کی سب سے بڑی ناکامی ورلڈکپ میں تھی جہاں چیمپئن بننے کی دوڑ میں سب سے آگے سمجھی جانے والی ٹیم ورلڈکپ میں پہلے راؤنڈ سے آگے نہ جاسکی۔ پاکستان ٹیم نیویارک میں انڈیا کے خلاف 120 کا ہدف نہ عبور کرسکی اور امریکہ جیسی ناتجربہ کار ٹیم سے شکست کھاگئی ۔اس شکست نے بابر اعظم کی کپتانی بھی چھین لی۔ وہ انفرادی کارکردگی میں بھی بہت نیچے چلے گئے۔
پاکستان نے اس سال 27 میچ کھیلے جن میں سے 9 میں فتح جبکہ 16 میں شکست ہوئی۔
پاکستان نے کپتانی میں تجربے جاری رکھے۔ سال کے شروع میں شاہین آفریدی کو نیوزی لینڈ کے دورے پر کپتان بنایا۔ جو سارے میچ ہار گئے ۔ان کی بری کارکردگی کے بعد بابر اعظم دوبارہ کپتان بنے۔ بابر کی شکستوں نے پھر آسٹریلیا کے دورے پر محمد رضوان کو کپتان بنادیا گیا وہ بھی سیریز ہارگئے۔ زمبابوے کے دورے پر سلمان علی آغا کپتان بن گئے اور جنوبی افریقہ کے خلاف رضوان پھر سے کپتان بن گئے اس افراتفری نے ٹیم کو نچلے نمبر پر لا پھینکا۔
انفرادی کارکردگی میں بابر اعظم 738 رنز بناکر سرفہرست رہے جبکہ شاہین آفریدی نے سب سے زیادہ 36 وکٹ لیے۔
مجموعی طور پر کرکٹ میں پاکستان کی کارکردگی ملی جلی رہی اور کوئی بڑا ٹائٹل نہیں جیت سکے۔
پاکستان کو آئندہ برس چیمپئینز ٹرافی کی میزبانی کرنا ہے جس کے لیے کراچی اور لاہور کے اسٹیڈیم کو بہتر کیا جارہا ہے لیکن ہائیبرڈ ماڈل ہونے کے باعث تماشائی انڈین ٹیم کو اپنے میدانوں میں ایکشن میں نہیں دیکھ سکیں گے سیاست نے کرکٹ کی روح کو مجروح کردیا۔
ویمنز کرکٹ
پاکستان ویمنز کرکٹ بھی بدترین کارکردگی کی حامل رہی۔ پاکستان نے اس سال ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں حصہ لیا جہاں وہ سارے میچ ہار گئی۔ پاکستانی خواتین نے اس سال 19 میچ کھیلے جن میں 5 میں فتح اور 14 میں شکست ہوئی۔ ویمنز کرکٹ میں فاطمہ ثنا کی کارکردگی سب سے عمدہ رہی لیکن باقی کھلاڑی خواتین محض سہولتوں سے محظوظ ہوتی رہی کارکردگی میں کوئی بہتری نہیں آسکی۔
ہاکی
پاکستان اپنے قومی کھیل میں کوئی نمایاں کارکردگی نہ دکھاسکا۔ پیرس اولمپکس میں کوالیفائی نہ کرنے کے باعث ہاکی ٹیم پہلی دفعہ اولمپکس سے باہر رہی۔ پاکستان نے واحد کامیابی اذلان شاہ کپ میں حاصل کی جب جاپان کے خلاف فائنل میں ہار کر پاکستان چاندی کے تمغے کا حقدار بن گیا۔ اگرچہ اس کامیابی پر بہت جشن منایا گیا لیکن اس لحاظ سے قابل تعریف تھی کہ پاکستان نے عرصہ دراز سے کوئی کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔
اسکواش
ماضی میں بلا شرکت غیرے حکمرانی کرنے والا پاکستان عرصہ دراز سے اسکواش میں کسی بڑی کامیابی کی آس میں تڑپ رہا ہے۔ اچھے کھلاڑیوں کی کمیابی اور سہولتوں میں کمی کے باعث اسکواش میں عالمی کامیابی ممکن نہیں دکھادیتی ہے۔ تاہم اس سال پاکستان کی 13 سالہ ماہنور علی نے امریکہ میں جونئیر چیمپئن کا ٹائیٹل جیت کر ملک کا نام روشن کردیا۔ ان کے شان بشانہ 12 سالہ عدنان سہیل نے گزشتہ دنوں اسکاٹش جونئیر چیمپئین کا ٹائیٹل پاکستان کے نام کردیا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News