Advertisement
Advertisement
Advertisement

برف کی دنیامیں رہنےوالےسائنسدان

Now Reading:

برف کی دنیامیں رہنےوالےسائنسدان
براعظم

براعظم انٹارکٹیکا کے 80 اسٹیشنوں پردنیا بھرکےتقریباچارہزارسائنسدان تحقیق کاکام کررہے ہیں ۔

کیاآپ براعظم انٹارکٹیکامیں ان  80 اسٹیشنوں پرکام کرنےوالےان سائنسدانوں کی زندگی،تحقیق کےبارےمیں جانتےہیں؟

انٹارکٹیکا کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پرپہنچنےوالے ہرجہازکی لینڈنگ وہاں برف کی تہہ پر بنائے گئے ایک ‘گلیشیر رن وے‘ پر ہوتی ہے۔ انٹارکٹیکا میں تحقیق کرنےوالےسائنسدانوں کی ٹیمیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔

رواں برس دس ممالک کے محققین آئندہ گرمیاں انٹارکٹیکا کی ابدی برف میں گزاریں گے۔ اس سال خاص طورپربیلاروس کی ٹیم سب سےبڑی ہے۔

بیلاروس کےالیکسی زاواٹوف کااس حوالےسےکہناہےکہ،”بیلاروس نےماہرین حیاتیات، ماہرین فلکیات اور ماہرین ارضیات کےساتھ انٹارکیٹکا پرتحقیق کاایک بڑا پروگرام شروع کیاہے۔ابھی تک ہمارے پاس صرف ایک سمراسٹیشن تھا،اب ہم وِنٹر اسٹیشن بنا رہےہیں۔‘‘

Advertisement

بیلا روس کےعلاوہ اس سال بھارت نےبھی ایک بڑی ٹیم بھیجی ہے،جوانٹارکٹیکاکے بین الاقوامی ہوائی اڈے سےدودیگرانٹارکٹک اسٹیشنوں پرروانہ ہو گی۔ اس ٹیم کےاہداف بھی بالکل واضح ہیں۔

براعظم انٹارٹیکا

بھارتی سائنسدان جیواکرشمامالی کااس حوالےسے  گفتگو کرتے ہوئےکہنا تھا، ”آب و ہوا سے متعلق تحقیق ہمارے اہم منصوبے ہیں۔ ہم موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے طویل المدتی رجحانات میں دلچپسی رکھتے ہیں۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ برفانی خطوں میں تبدیلیاں کیسے رونما ہو رہی ہیں، گلیشئر اور برف کے پہاڑ کیسے پگھل رہے ہیں؟‘‘

انٹارکٹک میں واقع نوئے مائر اسٹیشن میں روسی سائنسدان جرمن ماہرین ارضیات کے ساتھ مل کر کام کررہےہیں۔ یہاں کم ہی کوئی جاتاہےکیوں کہ یہ اسٹیشن انٹارکٹیکاکےآخری کنارے پر واقع ہے۔ جرمنی کی جوزفینے شٹاکیمان اور ایڈتھ کورگر یہاں زمینی مقناطیسی میدان اور زلزلوں کی شدت کی پیمائش کرتے ہیں۔

اسی اسٹیشن سے پندرہ میٹر گہرائی میں اسی طرح کی تحقیق انٹارکٹیکا کے دیگر ممالک بھی کر رہے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق اس براعظم کے حالات کا اندازہ لگانے کے لیے ابھی بہت کام ہونا باقی ہے۔

Advertisement
ماہر ارضیات جوزفینے شٹاکیمان کہتی ہیں، ”براعظم انٹارکٹیکا کے حوالے سے بنیادی طور پر بہت کم تحقیق ہوئی ہے۔ اعداد وشمار جمع کرنے کے اسٹیشن بہت کم ہیں۔‘‘

اسی اسٹیشن پرایئرکیمسٹری شعبےکےسربراہ مارکوس شوماخر بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ فی الحال یہاں کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اضافے سے پریشان ہیں۔

دوسری جانب طویل المدتی بنیادیوں پردنیاکےجنوب میں واقع اس ان چھوئےبراعظم کا استحصال بھی ہو سکتا ہے کیونکہ بین الاقوامی قانون کے مطابق یہ کسی کی سرزمین نہیں ہے۔

مارکوس شوماخرکاکہناتھا، ‘مستقبل میں کیاہوگااورحالات کیسےترتیب پائیں گے،یہ کہنامشکل ہے۔ خاص طورپرجب برف پگھلےگی اورنیچےسےچکمدار معدنیات نکلیں گی توملکیت کے حوالےسےتنازعات پیداہوسکتےہیں۔

اس اسٹیشن پرایک عرصے سےکام کرنے والی ماہر پائیداری و تحفظ ماحول میری شارلیٹ ریملر بتاتی ہیں، ”یہاں کہا جاتا ہے کہ یہ انٹارکٹیک خاندان ہے۔ دنیا میں پیش آنے والے تمام مسائل یہاں پس پشت چلے جاتے ہیں۔ یہاں ہر کوئی ایک دوسرے کی مدد اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔

بعض اوقات تو بہت مشکل حالات میں ایساکیاجاتاہےاوریہ ایک اچھی بات بھی ہے۔ یہاں دنیا بھر کی منفی خبروں کو بھلا  کر مل کر کام کیا جاتا ہے۔‘‘ شاید ایسا دنیا کے سب سے کم آبادی والے اس براعظم پر ہی ممکن ہے۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
ٹی وی میزبانوں کیلئے خطرے کی گھنٹی ! برطانوی چینل پر بھی اے آئی اینکر متعارف
پاکستان کا پہلا اے آئی لرننگ پلیٹ فارم ’’ ہوپ ٹو اسکلز ڈاٹ کام ‘‘ لانچ کردیا گیا
قالین دھونے والا دنیا کا پہلا روبوٹ متعارف
بغیر ڈرائیور خودکار ٹیکسی لندن میں کب چلیں گی؟ گوگل نے بتا دیا
پاکستان کا خلائی مشن ایک نئے دور میں داخل، ہائپرسپیکٹرل سیٹلائٹ لانچنگ کی تاریخ مقرر
پاکستان میں انٹرنیٹ کی سست روی معمول بن چکی،اصل وجہ کیا ہے ؟
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر