
بین الاقوامی جنسی ہراسگی سے متعلق آگاہی مہم می ٹو کا قصہ پرانا نہیں بلکہ ایک دو سال پہلے ہی شروع ہوا اور اس کو زیادہ نمایاں تب کیا گیا جب اکتوبر 2018 میں ہالی وڈ کے پروڈیوسر ہاروی وائنسٹن کی جانب سےدرجنوں خواتین اور اداکاروں کو کئی سال تک جنسی نشانہ بنائے جانے کی خبریں سامنے آئیں ۔
اس مہم کو دنیا بھر میں خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔
دوسری جانب می ٹو مہم پر پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر کے فنکاروں اور دیگر اہم شخصیات نے بھی بات کی ۔
Is there no protection for men in Pakistan?
شرم تم کو مگر نہیں آتی ؟کیا پاکستان میں مردوں کے لیے کوئی تحفظ نہیں ؟#BOLNews #AbPataChala #UsamaGhaza #Laws #Court #Pakistan
Gepostet von BOL am Mittwoch, 8. Januar 2020
کسی نے کہا کہ جس جگہ بھی خواتین اور مرد اکٹھے ہوں گے وہاں پر ایسی واقعات ہوں گے اور یہ فطری بات ہے ۔
ہمارے معاشرے میں جنسی ہراسگی کے واقعات مرد کے ساتھ پیش آئیں یا خواتین کے ساتھ، اس گھناؤنے فعل کے ثبوت مشکل سے ملتے ہیں، مرد ہو یا عورت،اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، جملے بازی کرکے ذہنی اذیت پہنچانا اور دست درازی اس سب کے شواہد اور ثبوتوں کا تو تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔
خواتین کو جنسی ہراسگی سے محفوظ رکھنے کی اقوام متحدہ کی قرارداد پر دستخط کرنے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔
سال 2010 میں پاکستان میں ملازمت پیشہ خواتین کو کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ فراہم کرنے کا قانون منظور کیا گیا۔
قانون کے تحت باقاعدہ سزاؤں کا اعلان ہوا کہ اگر کوئی بھی شخص کسی ملازمت پیشہ خاتون کو ہراساں کرے گا تو آئینِ پاکستان کی دفعہ509کے تحت اسے تین سال قید اور پانچ لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں اکٹھی بھی دی جا سکتی ہیں ،بعد میں 2012ء میں ایک ترمیمی ایکٹ کے ذریعے ملازمت پیشہ خواتین کے ساتھ تعلیمی اداروں میں پڑھنے والی طالبات اور پبلک مقامات پر سفر کرنے والی خواتین کو بھی اس ایکٹ کے تحت تحفظ فراہم کیا گیا۔
ایک بر طانوی نشریاتی ادارے کی حالیہ ریسرچ میں ایک غیرمتوقع بات سامنے آئی اور وہ یہ کہ عرب دنیا میں خواتین کی نسبت مردوں کی طرف سے یہ شکایت زیادہ سامنے آئی کہ انھیں زبانی اور جسمانی طور پر جنسی ہراس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی عربی سروس نے دس عرب ممالک اور فلسطینی علاقوں میں ایک سروے کیا تو معلوم ہوا کہ ان میں سے دو ممالک، تیونس اور عراق، ایسے ملک ہیں جہاں زبانی اور جسمانی جنسی تشدد کی شکایات خواتین کی نسبت مرد زیادہ کرتے ہیں۔
تیونس میں مردوں اور خواتین کے درمیان فرق بہت کم تھا، یعنی مردوں میں صرف ایک فیصد زیادہ۔
عراق میں یہ فرق خاصا زیادہ نظر آیا جہاں جائزے میں حصہ لینے والے مردوں میں سے 39 فیصد کا کہنا تھا کہ انھیں لوگوں سے زبان سے جنسی ہراس کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ایسی خواتین کا تناسب 33 فیصد تھا۔
اس کے علاوہ 20 فیصد عراقی مردوں کا کہنا تھا کہ انھیں جسمانی طور پر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جبکہ خواتین میں سے یہ شکایت 17 فیصد نے کی۔
اس کے علاوہ گھریلو تشدد کے سلسلے میں بھی خواتین کی نسبت مردوں نے اپنے تجربات کا اظہار زیادہ کیا۔
عراق میں خواتین کے حقوق کی صورتحال جس قدر خراب ہے، اسے سامنے رکھا جائے تو جائزے کے یہ نتائج حیران کن ہیں۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ جنسی زیادتی ہوتی رہے گی کیونکہ اس کے روک تھام کے لیے کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے اور اس کے حل کے لیے آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔
جنسی زیادتی کے خاتمے کے لیے ہمیں بحیثیت مجموعی ردعمل (ری ایکٹیو) رویے سے زیادہ پیشگی حفاظتی (پرو ایکٹیو) رویہ اپنانا ہو گا، جس سے جنسی زیادتی کے جرائم کا خاطر خواہ خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News