برطانیہ چاردہائیوں بعد یورپی یونین سےعلیحدہ ہوگیا

برطانیہ چاردہائیوں بعد یورپی یونین سے علیحدہ ہوگیاہےبرطانوی وزیراعظم کی رہائش گاہ پرروشن کی گئی گھڑی نےیورپی یونین سے علیحدگی کااعلان کیا۔
غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ اس اتحادسےمقامی وقت کے مطابق رات 11 بجےالگ ہوا جبکہ اس موقع پر خواتین اوربچوں سمیت لوگوں کی بڑی تعداد پارلیمنٹ اسکوائرکےسامنےموجود تھی۔
برطانوی وزیراعظم کی رہائش گاہ پر روشن کی گئی گھڑی نے بھی یورپی یونین سےعلیحدگی کااعلان کیا۔
اس اعلان کےساتھ ہی برطانیہ میں اہم عمارتیں برطانوی پرچم کےرنگ میں رنگ گئیں، بیلجیم میں برطانوی سفارتخانےسےیورپی یونین کا پرچم اتار دیا گیا جبکہ برسلز سے یونین جیک بھی ہٹادیا گیا۔
اس دوران برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے بریگزٹ کو زندگی کی سب سے بڑی خوشی اور حقیقی قومی تبدیلی قرار دیا۔
تجزیہ کاروں کاکہناہےکہ یورپی یونین سےعلیحدگی کاعمل ایک ہی لمحےمیں مکمل نہیں ہوسکےگا۔ اب برطانیہ ایک عبوری دورمیں داخل ہوجائےگاجس کا اختتام 31 دسمبر کوہوگا۔
ان گیارہ ماہ تک برطانیہ میں یورپی قوانین لاگورہیں گے اورلوگوں کی آزادانہ نقل وحرکت بھی ممکن ہوگی،اس دوران برطانیہ مستقبل میں یورپی یونین سےتعلق کےبارےمیں امورطےکرےگا۔
اس کےعلاوہ بورس جانسن کی یہ بھی کوشش ہے کہ اسی دوران جاپان اورامریکاسے تجارتی معاہدےکرلیے جائیں تاکہ معیشت کو مضبوط بنایا جائے۔
واضح رہے کہ دو روز قبل بیلجیم کےدارالحکومت برسلز میں یورپی پارلیمنٹ میں مباحثے کے بعد بریگزٹ معاہدے کی منظوری کے لیے ووٹنگ ہوئی جس کے حق میں 621 اور مخالفت میں صرف 49 اراکین نے ووٹ دیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کی 27 رکن ریاستوں نے گزشتہ برس اکتوبر میں ووٹ دے دیا تھا۔
بریگزٹ معاہدے کی ووٹنگ کے دوران 13 اراکین پارلیمنٹ نے ووٹ نہیں دیا اور ووٹنگ کے عمل کے بعد برطانیہ سے تعلق رکھنے والے 73 اراکین کے لیے الوداعی تقریب کا اہتمام کیا گیا جہاں روایتی گیت بھی گائے گئے تھے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نہ صرف معیشت بلکہ برطانیہ کا استحکام بھی بورس جانسن کے لیے چیلنج رہے گا۔
واضح رہےکہ برطانیہ میں یورپی یونین میں رہنے یااس سے نکل جانے کے حوالے سے 23 جون 2017 کو ریفرنڈم ہواتھاجس میں بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد جب کہ مخالفت میں 48 فیصد ووٹ پڑے تھے جس کے بعد اس وقت کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے استعفی ٰ دے دیاتھاکیونکہ ڈیوڈ کیمرون اس ڈیل کے مخالف تھے ۔
ڈیوڈ کیمرون کےاستعفے کے بعد برطانیہ کی وزیراعظم بننے والی ٹریزا مےنے جولائی 2019 میں بریگزٹ ڈیل کی پارلیمنٹ سے منظوری میں ناکامی کے بعد مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا اور ان کے بعد بورس جانسن نے عہدہ سنبھالا تھا۔
وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی بورس جانسن نے کہا تھا کہ اب چاہے کچھ بھی ہو برطانیہ 31 اکتوبر2019 کو یورپی یونین سے علیحدہ ہو جائے گا تاہم وہ اس میں ناکام رہے۔
برطانوی پارلیمنٹ نے 2 مرتبہ بورس جانسن کے منصوبے کو ناکام بنایا جس پر انہوں نے ملکہ برطانیہ سے پارلیمنٹ کو معطل کرنے کی منظوری بھی لی تھی جس کو سپریم کورٹ نے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔
بعد ازاں یورپی یونین نے معاہدے کاوقت دیتےہوئے 31 جنوری 2020 تک توسیع کی منظوری دی جس کو بورس جانسن نے قبول کرتے ہوئے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا تھا۔
یہ برطانیہ میں گزشتہ 5 سال کے دوران ہونے والے تیسرے عام انتخابات تھے،ان انتخابات میں بورس جانسن کی جماعت نے واضح برتری حاصل کی تھی جس کے بعد امید تھی کہ اب بریگزٹ ڈیل میں انہیں کوئی مشکل نہیں آئے گی۔
واضح رہے کہ برطانیہ نے 1973 میں یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی تھی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News