بت پرستوں سے پسندیدہ تجارتی شراکت دار تک افغان طالبان کی دوغلی پالیسی بےنقاب ہوگئی۔
گزشتہ 20 برسوں سے طالبان پروپیگنڈا بھارت کو ایک ہندو ’’کافر‘‘ ریاست اور کابل میں ’’غیر اسلامی قوتوں‘‘ کا سرپرست قرار دیتا رہا۔ مگر اب یہی امارت اسلامیہ اپنا وزیرِ خارجہ اور وزیرِ تجارت نئی دہلی بھیج رہی ہے، اسی ’’بت پرست‘‘ ریاست سے منڈیاں، ڈیم اور سرمایہ کاری مانگ رہی ہے۔
بامیان کے مجسموں کی تباہی سے اسی تہذیب کے وارثوں سے تعلقات تک
طالبان نے بامیان کے بدھ مجسمے “غیر اسلامی بتوں” اور “بدھ مت ہندو تہذیب” پر جنگ کے نام پر تباہ کیے تھے۔
آج وہ انہی بھارت سے تعلقات بڑھا رہے ہیں جو خود کو اسی بدھ مت اور ہندو ورثے کا محافظ اور فروغ دینے والا ظاہر کرتا ہے جس پر طالبان نے حملہ کیا تھا۔
کابل میں ’’بھارتی ایجنٹوں‘‘ سے بھارت پر انحصار تک
پہلے کابل کی جمہوری حکومت کو “بھارت کی کٹھ پتلی” کہا جاتا تھا اور بھارتی قونصل خانوں کو افغانستان اور پاکستان کے خلاف را کے دہشت گرد اڈے قرار دیا جاتا تھا۔
اب وہی امارت بھارتی گندم، بھارتی تعمیرِ نو کا سرمایہ، بھارتی بندرگاہوں تک رسائی اور تجارتی راستے مانگ رہی ہے یعنی اپنے سابق ’’دشمن‘‘ سے اپنی ہی معیشت کو سنبھالنے کی درخواست کر رہی ہے۔
امتِ مسلمہ کی باتیں مگر مسلم پڑوسی کو نظرانداز
طالبان مسلسل مسلم اخوت، اسلامی یکجہتی اور پاکستان کے ساتھ “تاریخی تعلقات” کی بات کرتے ہیں، جیسے ہی پاکستان کے ساتھ ٹی ٹی پی، سرحد اور مہاجرین پر تناؤ بڑھا، وہ ایک غیر مسلم طاقت کے دروازے کھولنے کو دوڑ پڑے، بجائے اس کے کہ پہلے اپنے مسلم پڑوسی سے مسائل حل کرتے۔
تاثر یہ بنتا ہے کہ ایک مسلم ریاست کے بنیادی سکیورٹی خدشات نظرانداز کیے جا سکتے ہیں، جبکہ تجارت اور سفارتی فائدے کے لیے ہندو اکثریتی ریاست کے سامنے لچک دکھانا قابلِ قبول ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان سن لے، کالعدم ٹی ٹی پی کی حمایت سے امن قائم نہیں ہوگا، وزیراعظم
مغرب مخالف بیانیہ مگر عالمی نظام سے عملی فائدہ
برسوں تک طالبان نے ’’مغربی اقتصادی غلامی، سودی نظام اور کفر کے اداروں‘‘ پر تنقید کی۔ اب وہی طالبان بھارت سے بینکاری چینلز کھلوانے، سرمایہ کاری اور تعمیراتی منصوبوں کے لیے لابی کر رہے ہیں، جبکہ بھارت مغربی سرمایہ اور عالمی اقتصادی نظام کا بڑا حصہ ہے۔
شریعت کی سخت گیری بمقابلہ عملی مفاداتی سیاست
اندرونی معاملات میں طالبان کسی قسم کے سمجھوتے کو تیار نہیں، لڑکیوں کی تعلیم، خواتین کی ملازمت، میڈیا آزادی، سب پر ’’خالص شریعت‘‘ کا نام لے کر سخت مؤقف ہے۔
مگر خارجہ پالیسی میں وہ غیر معمولی لچک دکھاتے ہیں، اور جو ریاست پیسہ، راستے یا سیاسی تحفظ دے، اس کے ساتھ فوراً تعلقات نارمل کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں چاہے وہ ماضی میں اسے ’’غیر اسلامی‘‘ کہتے رہے ہوں۔
کشمیر کے مسئلے پر ماضی کی باتیں اور دہلی میں خاموشی
طالبان سے وابستہ علماء اور جنگجو ماضی میں ’’جہادِ کشمیر‘‘ اور وہاں مسلمانوں پر بھارتی ظلم کا ذکر کرتے رہے ہیں، مگر دہلی کے اعلیٰ سطحی دوروں کے دوران کشمیر، سی اے اے، یا بھارتی مسلمانوں کے خلاف تشدد پر مکمل خاموشی اختیار کی ہے، کیونکہ ترجیح تجارت اور سفارتی قبولیت ہےہے، نہ کہ’’مظلوم مسلمان‘‘ کا مقدمہ۔
ڈیورنڈ لائن نہ ماننا، مگر بھارتی سرحدی پوزیشنز پر لچک
طالبان پاکستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن جیسی عالمی سطح پر تسلیم شدہ سرحد کو ماننے سے گریز کرتے ہیں۔ مگر بھارت کے ساتھ، حتیٰ کہ ان معاملات پر بھی جن کا تعلق پاکستان مخالف گروہوں سے جڑی حساس سکیورٹی تشویشات سے ہے، ایسے سخت مؤقف کا کوئی اظہار نہیں—بلکہ بھارت کے ’’سکیورٹی خدشات‘‘ کا احترام دکھایا جاتا ہے۔
اعترافِ ریاست کی تلاش اور ’’وقار‘‘ کا دعویٰ
امارت بار بار کہتی ہے کہ وہ شناخت کے لیے ’’بھیک‘‘ نہیں مانگتی، لیکن نئی دہلی کے بار بار وزارتی دورے، جس ملک نے انہیں اب تک باضابطہ تسلیم بھی نہیں کیا، یہ دراصل عملی طور پر عالمی قبولیت کے حصول کی دوڑ کو ظاہر کرتا ہے۔
طالبان پاکستان اور مغرب کے سامنے ایمان و مزاحمت کی زبان استعمال کرتے ہیں، مگر بھارت کے معاملے میں وہ خاموشی سے اپنا جہادی بیانیہ ایک طرف رکھ کر ایک کمزور ریاست کی طرح پیش آتے ہیں، جو ماضی کے ’’بتوں‘‘ اور ’’اسلام دشمنوں‘‘ کو بھول کر صرف تجارتی راستے، گندم اور سفارتی اہمیت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔












