Tue, 21-Oct-2025

تازہ ترین خبریں:

امریکا میں 40 سال پرانا قتل حل، ڈی این اے نے سفاک سیریل کِلر کا راز کھول دیا

 کولاراڈو: امریکا میں تقریباً 40 سال پرانا قتل بالآخر حل ہوگیا، جب پرانے کاغذی تھیلوں پر محفوظ شدہ ڈی این اے نے ایک بدنام زمانہ سیریل کِلر کی نشاندہی کر دی۔

امریکی میڈیا کے مطابق امریکا میں چار دہائیوں سے حل نہ ہونے والا قتل ٹیکنالوجی اور محفوظ ثبوتوں کی بدولت حل ہوگیا۔ 30 سالہ رونڈا میری فشر کے قتل کا سراغ ایک ایسے طریقے سے ملا جس کا اُس دور میں تصور بھی نہیں تھا۔

اس کے ہاتھوں پر چڑھائے گئے براؤن پیپر بیگز یعنی کاغذی تھیلوں سے ملنے والے ڈی این اے نے قاتل کا پردہ چاک کر دیا۔

مزید پڑھیں: 29 سالہ اطالوی ماڈل پامیلا جینینی کو بوائے فرینڈ نے بے دردی سے قتل کردیا

ڈگلس کاؤنٹی شیرف کے مطابق یہ تھیلے 1987 سے محفوظ حالت میں پڑے تھے۔

فارنزک ماہرین نے شبہ ظاہر کیا کہ مقتولہ کے ہاتھوں پر موجود قاتل کے خلیات ممکنہ طور پر تھیلوں کے اندرونی حصے میں منتقل ہو گئے ہوں گے اور بالآخر یہی سراغ فیصلہ کن ثابت ہوا۔

قتل کا پس منظر

1 اپریل 1987 کو رونڈا فشر کی لاش سی ڈیلیا کے قریب ایک ویران شاہراہ کے کنارے سے ملی تھی۔ انہیں جنسی تشدد کے بعد گلا دبا کر قتل کیا گیا تھا۔ وہ آخری بار ڈینور میں دیکھی گئی تھیں۔

1987 سے کیس مسلسل سرد خانے میں پڑا رہا۔ 2017 میں ہونے والا ڈی این اے ٹیسٹ بھی کوئی نتیجہ نہ دے سکا۔ لیکن اس سال کولڈ کیس یونٹ نے تمام ثبوتوں کا دوبارہ جائزہ لیا اور دو پرانے کاغذی تھیلے دوبارہ ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کیا جو کامیاب ثابت ہوا۔

کون تھا قاتل؟

ٹیسٹ کے نتائج نے جس شخص کی نشاندہی کی، وہ تھا وِنسیٹ ڈیرل گرووز—کولاراڈو کا بدنام ترین سیریل کِلر، جو 1996 میں جیل میں مر چکا ہے۔

گرووز 1978 سے 1988 کے درمیان درجنوں خواتین کے قتل، اقدامِ قتل اور جنسی حملوں میں ملوث تھا۔ پولیس کے مطابق اس کے جرائم کے اصل متاثرین کی تعداد شاید سرکاری اعداد سے کہیں زیادہ ہے۔

مزید پڑھیں: ہیوی ٹریفک نے کراچی کو مقتل گاہ بنا دیا، رواں سال 230 جنازے، 10 ہزار سے زائد زخمی

شیرف کے مطابق گرووز پہلے بھی اس کیس میں ممکنہ مشتبہ سمجھا جاتا تھا، مگر ڈی این اے کے بغیر اسے ثابت کرنا ممکن نہیں تھا۔

طاقتور ثبوت اور غیر معمولی تحقیق

فارنزک ماہر شین ولیمز نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ “1987 میں ڈی این اے ٹیسٹنگ کا تصور بھی نہیں تھا۔ پھر بھی ماہرین نے کاغذی تھیلے استعمال کیے، جس نے آج ایک بڑا راز کھول دیا۔

شیرف کے مطابق 40 سال پرانے پیپر بیگز سے قابلِ استعمال ڈی این اے ملنا ’’انتہائی نایاب‘‘ ہے اور یہ ثبوت محفوظ رکھنے کے عمل کی اہمیت ظاہر کرتا ہے۔

ورثا کے لیے دیر سے آیا انصاف

فشر کے والدین اور بھائی اس واقعے کے حل ہونے سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو چکے تھے، مگر تحقیقاتی ٹیم نے مقتولہ کے ایک کزن تک خبر پہنچائی، جس نے اسے ’’تسلی بخش انجام‘‘ قرار دیا۔

شیرف ڈیرن ویکلی نے کہا یہ کیس ہماری اس پالیسی کا ثبوت ہے کہ ہم ہر متاثرہ فرد کے لیے انصاف کے دروازے کھٹکھٹاتے رہیں گے، چاہے کتنا ہی عرصہ کیوں نہ گزر جائے۔

امریکی پولیس میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال

امریکا بھر میں حالیہ برسوں میں ڈی این اے جینیٹک جینیالوجی، ڈی این اے فینوٹائپنگ اور دیگر جدید طریقوں نے کئی پرانے کیسز کو زندہ کر دیا ہے۔

ڈگلس کاؤنٹی میں یہ گزشتہ سات سال میں ساتواں کولڈ کیس ہے جو حل ہوا

ہے۔

متعلقہ خبریں