دنیا بھر میں لوگوں کی بڑی تعداد جلد پر ٹیٹو بنواتی ہیں اور یہ رجحان کافی مقبولیت حاصل کر چکا ہے، تاہم ایک نئی تحقیق کے مطابق اس کی سیاہی جلد اندر سرایت کر کے صحت کے حوالے کئی مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق تقریباً ہر تین میں سے ایک امریکی کے جسم کے کسی نہ حصے پر ٹیٹو موجود ہے، اور ان ٹیٹو میں مختلف رنگ کی سیاہی استعمال کی جاتی ہے۔
ایک نئی تحقیق کے مطابق ٹیٹو کی سیاہی جلد کی اوپری سطح پر نہیں رہتی بلکہ یہ جلد کی اندرونی سے سرایت کرتی ہوئی لِمف نوڈز میں منتقل ہو کر جمع ہو جاتی ہے، یہ عمل مدافعتی نظام میں زندگی بھر کے لیے تبدیلیوں کا سبب بن سکتا ہے۔
تحقیق میں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ یہ تبدیلیاں مثبت ہیں یا منفی اثر رکھتی ہے۔
اس تحقیق کے اہم مصنف سانتیاگو ایف گونزالیز کا کہنا ہے کہ ٹیٹو صرف فیشن اورخوبصورتی کے لیے اختیار کیا جانے والا عمل نہیں ہے، بلکہ یہ مدافعتی نظام میں سوزش جیسی اہم مسائل سے بھی منسلک ہیں، جس کے لیے مستقبل میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
ٹیٹو کی سیاہی ایک پیچیدہ مرکب ہے جو جسم میں موجود سیال میں حل ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا، یہی خصوصیت ٹیٹو کو جلد پر دیرتک قائم رکھتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ہتھیلی سے مس ہوکر تناؤ سے آگاہ کرنے والا انوکھا ٹیٹو
تحقیقی ٹیم نے چوہوں کے پاؤں پر تین مختلف رنگوں سیاہ، سرخ اور سبز کا ایک چھوٹا سا 25 مربع ملی میٹر کا ٹیٹو بنایا، جس کے فوراً بعد جدید خوردبینی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے رنگ کی منتقلی کا مشاہدہ کیا۔
نتائج سے پتہ چلا کہ رنگ صرف جلد تک ہی محدود نہیں رہتے بلکہ یہ لِمف نوڈز میں منتقل ہو کر جمع ہوجاتے ہیں، لِمف نوڈز میں میکروفیجز (وہ مدافعتی خلیے جو جراثیم اور نقصان پہنچانے والی خلیوں کو تباہ کرتے ہیں) اس رنگ کو پکڑ کر ایک سوزش پیدا کرتے ہیں۔
چوبیس گھنٹوں کے اندر، محققین نے میکروفیجز کی تعداد میں نمایاں کمی نوٹ کی، جس سے ظاہر ہوتاہے ٹیٹو کی سیاہی مدافعتی خلیے کی ہلاکت کا سبب بن رہی ہے، حیرت انگیز طور پر لِمف نوڈز میں رنگ کے نشانات دو ماہ بعد بھی موجود تھے۔
سانتیاگو نے یہ بھی کہا کہ وہ اس وقت اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا ٹیٹو کا رنگ کینسر کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے یا نہیں، انہوں نے لوگوں کو تجویز دی کہ وہ ٹیٹو بنوانے میں احتیاط سے کام لیں، کیونکہ اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔




















