واشنگٹن: جیفری ایپسٹین سے متعلق خفیہ دستاویزات کے سنسر شدہ اجرا نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گرد ایک نیا سیاسی بحران کھڑا کر دیا ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق امریکی محکمۂ انصاف نے مقررہ ڈیڈ لائن پر ایپسٹین کیس سے متعلق فائلوں کا ایک حصہ جاری کیا، جن میں یہ چونکا دینے والا انکشاف سامنے آیا کہ کم از کم 1,200 افراد کو متاثرین یا ان کے قریبی رشتہ داروں کے طور پر شناخت کیا گیا ہے۔
یہ مواد درجنوں ہارڈ ڈرائیوز، پرانی سی ڈیز اور کمپیوٹرز پر مشتمل ہے، تاہم لاکھوں دستاویزات اب بھی جانچ کے عمل میں ہیں اور عوام کے سامنے نہیں لائی گئیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جاری کردہ معلومات کانگریس کے طے کردہ مکمل انکشاف کے معیار پر پورا نہیں اترتیں۔
ان کے مطابق کئی ایسی دستاویزات تاحال منظرِ عام پر نہیں آئیں جو یہ سمجھنے کے لیے نہایت اہم ہیں کہ ایپسٹین کے خلاف پہلے مؤثر کارروائی کیوں نہ ہو سکی۔
محکمۂ انصاف کے اعلیٰ حکام کا مؤقف ہے کہ سست روی کی وجہ متاثرین کی شناخت اور نجی معلومات کو تحفظ دینا ہے۔
تاہم ٹرمپ کے سیاسی مخالفین کا الزام ہے کہ سیاسی دباؤ کے تحت حقائق کو دبایا جا رہا ہے اور محکمۂ انصاف جان بوجھ کر محدود معلومات جاری کر رہا ہے۔
ایوانِ نمائندگان کی جوڈیشری کمیٹی میں سینیئر ڈیموکریٹ رکن جیمی رسکن نے کہا کہ محکمۂ انصاف نے متاثرین کے ساتھ کوئی احترام نہیں دکھایا۔
ان کے بقول یہ عمل ان حقائق کو چھپانے کی کوشش ہے جو ٹرمپ، ان کے قریبی حلقوں یا ایپسٹین کے بااثر سماجی و کاروباری نیٹ ورک سے جڑے ہو سکتے ہیں۔
ریپبلکن رکنِ کانگریس تھامس میسی نے حکومت پر قانون کی روح اور متن دونوں کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ اس وقت تک مطمئن نہیں ہوں گے جب تک متاثرین مطمئن نہ ہوں۔
ان کے ساتھ اس مہم میں شامل ڈیموکریٹ رکن رو کھنّا نے خبردار کیا ہے کہ اگر مکمل عملداری نہ ہوئی تو اٹارنی جنرل پام بونڈی کے خلاف توہینِ کانگریس کی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب ڈپٹی اٹارنی جنرل ٹوڈ بلانش نے ان دھمکیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ محکمۂ انصاف قانون کے مطابق کام کر رہا ہے۔
ان کے مطابق تقریباً 10 لاکھ صفحات پر مشتمل ریکارڈ میں بیشتر مواد متاثرین سے متعلق ہے اور کوئی ایسی دستاویز جاری نہیں کی جائے گی جس سے متاثرین کو نقصان پہنچے۔
جاری کردہ فائلوں میں سابق صدر بل کلنٹن سے متعلق حوالہ جات اور ایک تصویر شامل ہے، تاہم ٹرمپ سے متعلق معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں، حالانکہ وہ ماضی میں ایپسٹین کے دوست رہ چکے ہیں۔
ایک تصویر جس میں ٹرمپ نظر آ رہے تھے، عارضی طور پر ویب سائٹ سے ہٹائی گئی، تاہم بعد میں دوبارہ بحال کر دی گئی۔
ایپسٹین فائلز ٹرانسپیرنسی ایکٹ کے تحت محکمۂ انصاف تمام غیر خفیہ دستاویزات جاری کرنے کا پابند ہے، مگر نامکمل انکشافات نے ریپبلکن پارٹی کے اندر بھی اختلافات کو جنم دے دیا ہے اور MAGA تحریک میں بے چینی بڑھ گئی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ایپسٹین کیس ٹرمپ کے لیے ایسے وقت میں ایک بڑا دردِ سر بن چکا ہے جب ان کی مقبولیت دباؤ میں ہے اور معیشت سے متعلق چیلنجز درپیش ہیں۔
ایپسٹین کیس سے کی متاثرہ خاتون لیزا فلپس کا کہنا ہے کہ متاثرین کو جوابات چاہییں۔
ان کے مطابق حکومت خود کو بچانے میں مصروف ہے، جبکہ انصاف کے منتظر متاثرین ایک بار پھر تاخیر کا شکار ہو گئے ہیں۔



















