کابل: افغان طالبان رجیم کی جانب سے علم اور تعلیم کے خلاف سخت گیر پالیسیوں نے افغانستان کے سماج کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔
عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق افغان طالبان رجیم کی جانب سے علم اور تعلیم کے خلاف سخت گیر پالیسیوں نے افغانستان میں انسانی حقوق، فکری آزادی اور تعلیمی نظام کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان کی پابندیوں کے باعث یونیورسٹیاں عملی طور پر خاموش، کتب خانے بند اور تحقیق کا عمل مفلوج ہو چکا ہے، جبکہ نوجوان نسل کا تعلیمی و فکری مستقبل شدید خطرات سے دوچار ہے۔
افغانستان کے معتبر جریدے ہشتِ صبح اور تحقیقی ادارے افغانستان اینالیسٹس نیٹ ورک (AAN) کی رپورٹس کے مطابق طالبان حکومت نے 670 سے زائد یونیورسٹیوں کی نصابی کتب اور سینکڑوں عوامی و غیر نصابی کتابوں پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ان میں انسانی حقوق، جمہوریت، انتخابی نظام، آئینی قانون، سوشیالوجی، فلسفۂ اخلاق اور دیگر اہم مضامین شامل ہیں، جنہیں نصاب سے مکمل طور پر خارج کر دیا گیا ہے۔
اے اے این کے مطابق خواتین مصنفین اور ایرانی لکھاریوں کی کتب کو بھی ممنوعہ فہرست میں شامل کیا گیا ہے، جبکہ ہشتِ صبح نے انکشاف کیا ہے کہ طالبان نے اہم تاریخی اور سیاسی کتابوں پر بھی پابندی لگا دی ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ اقدامات معلومات تک رسائی محدود کرنے، تاریخی حقائق مسخ کرنے اور فکری آزادی کو کنٹرول کرنے کی ایک منظم کوشش ہیں۔
تعلیمی بحران کا سب سے سنگین پہلو لڑکیوں کی تعلیم ہے۔ یونیسف کی رپورٹ کے مطابق 2025 میں افغانستان میں 21 لاکھ 30 ہزار سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں، جن میں 60 فیصد لڑکیاں شامل ہیں، جبکہ 22 لاکھ نوجوان خواتین ثانوی تعلیم سے مکمل طور پر محروم رہیں۔
ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ طالبان کی علم دشمن پالیسیاں نہ صرف افغانستان کی تاریخ، جمہوریت اور انسانی حقوق کو بری طرح پامال کر رہی ہیں بلکہ افغان نوجوانوں کو انتہاپسندی کی دلدل میں دھکیل رہی ہیں، جو خطے اور بالخصوص ہمسایہ ممالک، خاص طور پر پاکستان، کے لیے بھی ایک سنگین سیکیورٹی خطرہ بنتی جا رہی ہے۔


















