Tue, 21-Oct-2025

تازہ ترین خبریں:

مصنوعی ذہانت کی مدد سے طبی ماہرین نے بیماری کی دو نئی اقسام دریافت کر لی

اب تک دنیا بھر میں ایم ایس کا علاج زیادہ تر ظاہری علامات کی بنیاد پر کیا جاتا رہا ہے

مصنوعی ذہانت  کے استعمال سے سائنس دانوں نے ملٹی پل اسکلروسس (ایم ایس) کی دو نئی حیاتیاتی اقسام دریافت کر لی ہیں، جو ہر مریض کے جسمانی نظام کے مطابق ذاتی نوعیت کے علاج کی راہ ہموار کرتی ہیں۔

اس پیش رفت کا مقصد بیماری کی سمت کا ابتدائی مرحلے میں اندازہ لگا کر بروقت علاج ممکن بنانا ہے، تاکہ اعصابی نظام کو مستقل نقصان سے بچایا جا سکے۔

اب تک دنیا بھر میں ایم ایس کا علاج زیادہ تر ظاہری علامات کی بنیاد پر کیا جاتا رہا ہے، جو ہمیشہ مریض کے جسم کے اندر ہونے والی حیاتیاتی تبدیلیوں سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔

تاہم یونیورسٹی کالج لندن (UCL) کی زیرِ قیادت ایک نئی تحقیق، جس میں 600 مریضوں کا ڈیٹا شامل تھا، بیماری کی اصل حیاتیات کو گہرائی سے سمجھنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

محققین نے اعصابی خلیات کو پہنچنے والے نقصان کی نشاندہی کرنے والے sNfL پروٹین کی سطح کو جدید دماغی اسکینز کے ساتھ یکجا کیا۔

اس ڈیٹا کا تجزیہ SuStaIn نامی اے آئی ماڈل کے ذریعے کیا گیا، جس کے نتیجے میں ایم ایس کی دو الگ اقسام سامنے آئیں۔

پہلی قسم کو “ابتدائی پروٹین میں تیز اضافہ” کا نام دیا گیا، جس میں بیماری کے آغاز ہی میں اعصابی نقصان تیزی سے بڑھتا ہے۔

اس کے نتیجے میں دماغ کے مخصوص حصوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے، جو بیماری کے زیادہ جارحانہ اور تیز رفتار ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔

دوسری قسم میں بیماری کی رفتار نسبتاً سست ہوتی ہے۔ اس صورت میں دماغ کی ساخت میں تبدیلیاں خاموشی سے ہوتی رہتی ہیں، جبکہ نقصان ظاہر کرنے والے پروٹین کی سطح بعد میں بڑھتی ہے۔

اے آئی ٹیکنالوجی کی مدد سے ڈاکٹروں کو یہ سہولت مل گئی ہے کہ وہ ہر مریض کی بیماری کی قسم کا ابتدائی مرحلے میں تعین کر سکیں اور مستقل نقصان سے پہلے سب سے مؤثر علاج کا انتخاب کریں۔

زیادہ خطرناک کیسز میں طاقتور ادویات دی جا سکتی ہیں، جبکہ سست رفتاری سے بڑھنے والی بیماری میں اعصاب کو تحفظ دینے والی تھراپیز استعمال کی جا سکتی ہیں۔

ڈیجیٹل اے آئی ٹولز کو روایتی طبی معائنے کے ساتھ ملا کر یہ تحقیق ایم ایس کے علاج کو علامات پر مبنی طریقے سے ہٹا کر حیاتیات پر مبنی علاج کی طرف لے جا رہی ہے، جو دنیا بھر میں لاکھوں مریضوں کیلئے بیماری کی رفتار کو روکنے کی نئی امید ثابت ہو سکتی ہے۔