واشنگٹن: سائنسدانوں نے یہ حیران کن انکشاف کیا ہے کہ بعض قدیم پودے حرارت کو پولینیشن کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ایک نئی سائنسی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ بعض قدیم پودے رنگ اور خوشبو کے بجائے حرارت کے ذریعے حشرات کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں، جو پولینیشن (زر افشانی) میں مددگار بنتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ طریقہ پودوں کی دنیا میں پولینیٹرز کو متوجہ کرنے کی قدیم ترین حکمتِ عملیوں میں سے ایک ہو سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: 5 ایسے پودے جو گرمی کے موسم میں کریں آپ کی بڑی مشکل آسان
ہارورڈ یونیورسٹی کی سربراہی میں کی گئی اس تحقیق کے مطابق سائیکڈز نامی قدیم پودے جو جراسک دور سے تقریباً بغیر تبدیلی کے موجود ہیں، اپنے مخروطی پھولوں (کونز) میں حرارت پیدا کرتے ہیں۔
یہ حرارت ایک باقاعدہ یومیہ (سرکیڈین) ردھم کے تحت بڑھتی اور گھٹتی ہے، جس کے نتیجے میں مخصوص بھونرے (بیٹلز) ان کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ نر کونز دوپہر کے بعد گرم ہونا شروع ہوتے ہیں، جبکہ مادہ کونز تقریباً تین گھنٹے بعد گرم ہوتے ہیں۔
اسی ترتیب سے بھونرے نر کونز سے مادہ کونز کی طرف منتقل ہوتے ہیں اور یوں زر افشانی مکمل ہو جاتی ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ عمل روشنی یا درجہ حرارت جیسے بیرونی عوامل کے بجائے پودوں کے اندرونی جینیاتی کلاک سے کنٹرول ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: کسان نے ایک پودے میں دو سبزیاں اُگا کر سب کی توجہ حاصل کرلی
سائنس دانوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ پودوں میں AOX1 نامی جین توانائی کو براہِ راست حرارت میں بدل دیتا ہے، جبکہ بھونروں کے اینٹینا میں موجود حساس سینسر TRPA1 آئن چینل کے ذریعے حرارتی شعاعوں (انفراریڈ) کو محسوس کرتے ہیں۔
اس طرح پہلی بار یہ براہِ راست ثبوت ملا کہ حرارت بطور اشارہ پولینیشن میں کردار ادا کرتی ہے۔
ماہرین کے مطابق آج دنیا میں سائیکڈز کی صرف 300 اقسام باقی ہیں، جن میں سے بیشتر خطرے سے دوچار ہیں۔
پھول دار پودوں کے پھیلاؤ اور حشرات میں رنگوں کو پہچاننے کی بہتر صلاحیت نے ممکنہ طور پر سائیکڈز کے اس سادہ حرارتی اشارے کو کم مؤثر بنا دیا ہے۔
تحقیق کی سربراہ وینڈی ویلینسیا-مونٹویا کا کہنا ہے کہ یہ دریافت پودوں اور جانوروں کے درمیان مواصلات کی ایک نئی جہت کو سامنے لاتی ہے۔
ان کے مطابق ہم خوشبو اور رنگ کو تو جانتے تھے، مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ انفراریڈ حرارت بھی پولینیشن کا اشارہ بن سکتی ہے۔
یہ تحقیق معروف سائنسی جریدے Science میں شائع ہوئی ہے۔



















