Tue, 21-Oct-2025

تازہ ترین خبریں:

انسانی دماغ اب بھی اے آئی سے آگے، سائنسدانوں نے وجہ بتادی

اس تحقیق میں بندروں کو شامل کیا گیا جو حیاتیاتی اور دماغی ساخت کے لحاظ سے انسانوں سے کافی مشابہ ہیں۔

حالیہ برسوں میں مصنوعی ذہانت میں غیر معمولی ترقی کے باوجود انسانی دماغ اب بھی ایک اہم صلاحیت میں کمپیوٹرز پر برتری رکھتا ہے اور وہ ہے مختلف کاموں کے درمیان سیکھنے اور مہارت منتقل کرنے کی قدرت۔

ایک نئی سائنسی تحقیق نے اس صلاحیت کے پیچھے موجود طریقہ کار پر روشنی ڈالی ہے۔ پرنسٹن یونیورسٹی کی قیادت میں ہونے والی اس تحقیق میں براہِ راست انسانوں پر تجربات کے بجائے ریزس مکاک بندروں کو شامل کیا گیا جو حیاتیاتی اور دماغی ساخت کے لحاظ سے انسانوں سے کافی مشابہ سمجھے جاتے ہیں۔

ان بندروں کو اسکرین پر مختلف اشکال اور رنگ پہچاننے کے کام دیے گئے اور انہیں مخصوص سمت میں دیکھ کر جواب دینا ہوتا تھا۔ اس دوران دماغی اسکین کے ذریعے یہ جانچ کی گئی کہ مختلف کاموں کے دوران دماغ کے کون سے حصے سرگرم ہوتے ہیں۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ بندروں کے دماغ مختلف کاموں کے لیے نیورونز کے الگ الگ مگر دوبارہ قابلِ استعمال مجموعے استعمال کرتے ہیں، جنہیں محققین نے ’’ذہنی لیگو بلاکس‘‘ کا نام دیا ہے۔

یہی بلاکس نئے کاموں میں دوبارہ جوڑ کر استعمال کیے جاسکتے ہیں جو دماغی لچک کی واضح مثال ہے اور یہی وہ خوبی ہے جس میں جدید ترین مصنوعی ذہانت بھی پیچھے رہ جاتی ہے۔

تحقیق میں شامل نیوروسائنس دان ٹِم بشمین کے مطابق جدید اے آئی ماڈلز اگرچہ کسی ایک کام میں انسان سے بہتر کارکردگی دکھاسکتے ہیں مگر مختلف کام بیک وقت سیکھنے اور انجام دینے میں مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس انسانی دماغ ایک ہی ذہنی اجزا کو مختلف کاموں میں استعمال کرسکتا ہے۔

یہ ’’ذہنی لیگو بلاکس‘‘ زیادہ تر دماغ کے پری فرنٹل کارٹیکس میں پائے گئے جو مسئلہ حل کرنے، منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی جیسے اعلیٰ دماغی افعال سے منسلک ہوتا ہے۔

محققین نے یہ بھی دیکھا کہ جب کسی بلاک کی ضرورت نہ ہو تو اس کی سرگرمی کم ہو جاتی ہے جس سے دماغ غیر ضروری معلومات کو ایک طرف رکھ کر موجودہ کام پر توجہ مرکوز کرلیتا ہے۔

یہ تحقیق اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ انسان اور جانور کس طرح نئے اور غیر مانوس چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پہلے سے موجود علم کو استعمال کر لیتے ہیں جبکہ موجودہ مصنوعی ذہانت میں یہ صلاحیت محدود ہے اور وہ ایک کام سیکھنے کے بعد پچھلا کام بھولنے کا شکار ہو جاتی ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں یہ نتائج زیادہ لچکدار مصنوعی ذہانت تیار کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں جب کہ اعصابی اور نفسیاتی امراض کے علاج میں بھی اس تحقیق سے رہنمائی مل سکتی ہے۔