اکثر لوگوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ابھی تو سال شروع ہوا تھا اور اچانک دسمبر آ پہنچا۔ یوں لگتا ہے جیسے وقت تیزی سے گزر رہا ہو اور پورا سال پلک جھپکتے ہی ختم ہوگیا ہو۔
دراصل اس احساس کے پیچھے ایک سائنسی وجہ موجود ہے جو انسانی دماغ کے وقت کو سمجھنے کے طریقے سے جڑی ہوئی ہے۔
انسانی دماغ وقت کو کیسے سمجھتا ہے؟
ماہرین کے مطابق وقت کوئی ایسی شے نہیں جسے انسان براہِ راست محسوس کرے۔ جیسے رنگ، آواز یا خوشبو کو مخصوص حسِ اعضا کے ذریعے محسوس کیا جاتا ہے، اسی طرح وقت کے لیے کوئی الگ حس موجود نہیں۔
انسانی دماغ وقت کو محسوس نہیں کرتا بلکہ اندازہ لگاتا ہے۔ دماغ تبدیلیوں اور واقعات کو جمع کرکے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ کتنا وقت گزر چکا ہے۔
اگر کسی مخصوص عرصے میں زیادہ سرگرمیاں ہوں تو وہ وقت زیادہ طویل محسوس ہوتا ہے اور اسی لیے دلچسپ یا سنسنی خیز لمحات میں وقت سست لگتا ہے۔
مثال کے طور پر حادثات کے عینی شاہد اکثر بتاتے ہیں کہ واقعے کے دوران وقت جیسے تھم سا گیا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شدید کیفیت میں دماغ بہت زیادہ معلومات محفوظ کرلیتا ہے جس سے بعد میں لگتا ہے کہ وقت زیادہ گزرا تھا۔
روزمرہ معمولات اور وقت کے تیزی سے گزرنے کا احساس
اس کے برعکس روزمرہ معمولات وقت کے احساس کو تیز کر دیتے ہیں۔ جیسے جیسے انسان کی عمر بڑھتی ہے تو زندگی میں نئے تجربات کم اور معمولات زیادہ ہوجاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بچپن میں سال لمبے محسوس ہوتے ہیں جب کہ بڑی عمر میں سال تیزی سے گزر جاتے ہیں۔ دن تو طویل لگتے ہیں لیکن سال مختصر محسوس ہوتے ہیں۔
مزید یہ کہ جب انسان وقت پر توجہ دیتا ہے، جیسے انتظار کے دوران تو وقت آہستہ گزرتا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن جب ذہن کسی کام یا دلچسپی میں مصروف ہو تو وقت کا احساس کم ہوجاتا ہے اور گھنٹے لمحوں میں بدل جاتے ہیں۔
نئے تجربات وقت کے احساس کو کیسے بدل سکتے ہیں؟
ماہرین کے مطابق اگر انسان چاہے کہ سال آخر میں زیادہ طویل محسوس ہو تو اسے اپنی زندگی میں نئے تجربات شامل کرنے چاہیے۔ یادیں محفوظ کرنے کے لیے ڈائری لکھنا، ماضی کو دہرانا اور منفرد سرگرمیوں میں حصہ لینا وقت کے احساس کو متوازن رکھنے میں مدد دیتا ہے۔
مختصر یہ کہ دسمبر جلدی آنے کا احساس وقت کی رفتار نہیں بلکہ ہمارے دماغ کی کارکردگی کا نتیجہ ہے۔ نئی یادیں اور تجربات ہی اس احساس کو سست کرسکتے ہیں۔



















