Tue, 21-Oct-2025

تازہ ترین خبریں:

دوسری خواتین کی پوسٹ لائک کرنے پر بیوی کا شوہر کے خلاف مقدمہ درج

دونوں فریقین کے الزامات کا جائزہ لینے کے بعد عدالت نے فیصلہ دیا کہ شوہر زیادہ قصوروار ہے

سوشل میڈیا  نے جہاں قربتوں کو پروان چڑھایا ہے وہی یہ کئی رشتوں میں فاصلے کا سبب بھی بنا ہے ایسا ہی ایک واقعہ ترکی میں پیش آیا۔

ترکی کی ایک عدالت میں ایک انوکھا کیس پیش کیا گیا جس میں ایک خاتون نے اپنے شوہر کے خلاف یہ کہہ کر مقدمہ دائر کیا کہ وہ سوشل میڈیا پر دوسری خواتین کی پوسٹ کو نہ صرف لائیک بلکہ نازیبا تبصرے بھی کرتا ہے۔

یہ غیر معمولی مقدمہ ترکی کے شہر قیصری میں دائر کیا گیا، جہاں ایک مقامی خاتون، جسے میڈیا میں صرف ایچ بی کے نام سے شناخت کیا گیا، نے اپنے شوہر کے خلاف طلاق کی درخواست دی۔ خاتون کی جانب سے یہ الزام لگایا گیا شوہر اس کی زبانی طور پر تذلیل اور ہراساں کرتا ہے، اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وقت گزارتا ہے، دوسری خواتین کی تصاویر کو لائیک کرنے کے ساتھ نازیبا تبصرے بھی کرتا ہے۔ خاتون کے وکلا نے مالی معاوضے کا مطالبہ کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ شوہر نے ازدواجی رشتے میں وفاداری کی خلاف ورزی کی ہے۔

دوسری جانب خاتون کے شوہر جس کا اصل نام ظاہر کیے بغیر صرف ایس بی کہا گیا، نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے طلاق کی درخواست دائر کردی۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کی بیوی نے اس کے والد کی توہین کی اور اس کی حد سے زیادہ حسد کی عادت نے اس کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا سے ہفتہ بھر دوری ذہنی صحت کیلئے مفید قرار

دونوں فریقین کے الزامات کا جائزہ لینے کے بعد عدالت نے فیصلہ دیا کہ شوہر زیادہ قصوروار ہے۔ عدالت نے اسے 750 ترک لیرا (تقریباً 20 ڈالر) ماہانہ نان نفقہ اور 80 ہزار ترک لیرا (تقریباً 2 ہزار ڈالر) بطور ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا بظاہر بے ضرر سمجھی جانے والی یہ آن لائن سرگرمیاں دراصل جذباتی عدم تحفظ کو بڑھانے اور ازدواجی تعلقات کے توازن کے بگاڑ کا سبب بن سکتی ہیں۔

شوہر نے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی اور مؤقف اپنایا کہ جرمانہ بہت زیادہ ہے، تاہم اس کی اپیل مسترد کر دی گئی۔ جج نے کہا کہ دوسری خواتین کی تصاویر کو لائیک کرکے شوہر نے ازدواجی اعتماد کو مجروح کیا۔

اگرچہ یہ کیس بظاہر دلچسپ نوعیت کا ہے، تاہم ماہرین کے مطابق اس کا ترکی میں طلاق کے مقدمات پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔ بعض وکلا کا کہنا ہے کہ مستقبل میں سوشل میڈیا پر لائیکس، تبصرے اور دیگر ڈیجیٹل سرگرمیاں طلاق کے مقدمات میں مضبوط ثبوت کے طور پر استعمال کی جا سکتی ہیں۔