Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

مرکزی بینک کی آزادی، اصلاح یا بگاڑ؟

Now Reading:

مرکزی بینک کی آزادی، اصلاح یا بگاڑ؟

 آزادی سے زیادہ شفافیت، جوابدہی، اور مواصلات اچھی مرکزی بینکاری کی پہچان ہیں۔

اسلام آباد میں سینٹر فار ایرو اسپیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (سی اے ایس ایس) کے زیر اہتمام ’سینٹرل بینک کی آزادی: اصلاحات یا تبدیلی؟‘  کے موضوع پر ویبینار میں سرکردہ ماہرین اقتصادیات  نے اہم پیغامات دیے۔

 بحث مرکزی بینک کی آزادی (سی بی آئی) کے عالمی ارتقاء اور پاکستان کے تناظر میں سی بی آئی کی خوبیوں اور خامیوں پر مرکوز تھی۔

نامور مقررین میں نیو یارک یونیورسٹی اسکول آف بزنس کے لیونارڈ این سٹرن سنٹر سے پروفیسر ڈاکٹر پال واچٹیل،  سابق گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان ڈاکٹر شمشاد اختر، ڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈویلپمنٹ پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزیر، ڈائریکٹر  اقتصادی امور اور قومی ترقی ڈاکٹر عثمان ڈبلیو چوہان شامل تھے۔

ویبنار کی صدارت صدر سی اے ایس ایس ایئر مارشل (ریٹائرڈ) فرحت حسین خان نے کی جبکہ سنٹر کے ریسرچر مبشر احسان نے کارروائی کے انتظامی فرائض سنبھالے۔

Advertisement

نیویارک سے بات کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر پال واچٹیل نے ترقی یافتہ اور ابھرتی ہوئی معیشتوں میں مرکزی بینک کی آزادی (سی بی آئی) کا تقابلی جائزہ پیش کیا اور کہا کہ ابھرتی ہوئی مارکیٹ کے ممالک میں سی بی آئی (یا اس کا تصور بھی) معمولی نہیں سمجھا جانا چاہیے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سی بی آئی کو مانیٹری پالیسی کے کردار کے ساتھ سب سے پہلے تیار کیا گیا تھا، لیکن عالمی اقتصادی بحران  کے بعد کی عکاسی  کے لیے زیادہ اہم سمجھ کی ضرورت ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر پال واچٹیل  نے کہا بحران کے تجربات کے نتیجے میں(بشمول حالیہ وبائی بیماری) مرکزی بینک کی حکمرانی کے اصولوں پر بحث سی بی آئی سے دور ہو گئی ہے اور اب ہدف کے تعین، شفافیت اور جوابدہی پر زور دیا جارہا ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ اس جائزے کے مطابق   عالمی مالیاتی بحران نے مرکزی بینک کے کردار میں مالی استحکام کا اضافہ کیا جس میں ایک  آزاد مرکزی بینک اور حکومت کے درمیان قریبی تعامل شامل تھا کیونکہ سی بی آئی  کو کسی ملک کے سیاسی اداروں سے صاف طور پر الگ نہیں کیا جا سکتا۔

ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا کہ ایس بی پی ترمیمی ایکٹ 2021 ایک خوش آئند پیش رفت ہے کیونکہ 1956 کا ایکٹ اپنی زندگی ختم کر چکا ہے۔

انہوں نے قیمت کے استحکام، مالی استحکام اور اقتصادی ترقی کے ہموار مقاصد اور بینک کے افعال کی واضح خصوصیات کے لیے ایکٹ کی تعریف کی۔

Advertisement

ڈاکٹر شمشاد اختر نے اس بات پر زور دیا کہ مسئلہ چاہے کتنا ہی پیچیدہ کیوں نہ ہو، توسیعی پالیسی کو برقرار رکھنے کے لیے مالیاتی سختی کے ساتھ ساتھ افراط زر کی توقعات کو کم کرنے کی ضرورت ہوگی۔

انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ اسٹیٹ بینک کی آزادی کے لیے مالیاتی ہم آہنگی کے لیے ادارہ جاتی میکانزم اور زیادہ مضبوط شفافیت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ جوابدہی کی ضرورت ہے۔

ترمیمی ایکٹ 2021 کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہدہ وزیر نے دلیل دی کہ یہ ایکٹ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی خود مختاری کے بارے میں نہیں ہے بلکہ اس کا بنیادی مقصد پاکستان کی معیشت کو کنٹرول کرنا ، اس کا انتظام کرنا اور اسے اس  کے اسٹریٹجک اہداف کے حصول سے روکنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے مقاصد میں سی پیک  اور علاقائی انضمام کو سبوتاژ کرنا شامل تھا۔

ڈاکٹر شاہدہ وزیر کا کہنا تھا کہ کمرشل بینکوں سے بہت زیادہ شرح  پر قرض لینے کے ذریعے قرض سے جی ڈی پی کے تناسب میں اضافہ اور طویل مدت کے لیے دفاع اور ترقی کے لیے وسائل فراہم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ  پاک چین شراکت اور جنوبی تجارت میں کمی آئی ایم ایف کے شیئر ہولڈرز کے مالیاتی محکموں میں اضافہ کرتی ہے۔

Advertisement

سی بی آئی کے عوامی کردار پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عثمان ڈبلیو چوہان نے اس بات کا خاکہ پیش کیا کہ کس طرح سی بی آئی نے مقامی ضروریات اور مقامی سیاق و سباق کی بنیاد پر دنیا بھر میں مختلف طریقے سے ترقی کی ہے۔

ان کے خیال میں پاکستان سمیت ہر ملک کو اپنی مانیٹری اتھارٹی کو اپنی مقامی ضروریات کے مطابق تیارکرنا چاہیے۔

 ایس بی پی ترمیمی ایکٹ کے خاص وقت پر سوال اٹھاتے ہوئے ڈاکٹر چوہان نے کہا کہ اچھی طرح سے کام کرنے والے انتظامی ڈھانچے میں بہت سے اداروں کو فعال، مقصداً یا خالصتاً ادارہ جاتی آزادی کی اجازت ہے   لیکن اسٹیٹ بینک کے ساتھ خصوصی مراعات یافتہ سلوک  خاص طور پر جب معیشت کو مضبوط مالیاتی اور مشکل حالات کے دوران مالی نظام کی ہم آہنگی کی اشد ضرورت ہو  تو یہ خاص طور پرباہر سے مسلط کیا گیا نظام مشتبہ بن جاتا ہے۔

 انہوں نے مشورہ دیا کہ پاکستان کی قومی طاقت کے عناصرکو بشمول اس کی معیشت کے ملک کے بنیادی قومی مفادات سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ مرکزی بینک کو حساس معاملات جیسے کہ مالی، مالیاتی، قیمت اور کرنسی کے استحکام پر طاقت کا ایک آزاد اور علیحدہ ستون بنا کر  پاکستان شاید اس ادارے کو قومی مفادات کے لیے استعمال نہیں کر رہا ہے جس کی وجہ سے اس کی اقتصادی خودمختاری پر سمجھوتہ کرنے کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

اختتامی خطاب کرتے ہوئے  ائیر مارشل (ریٹائرڈ) فرحت حسین خان نے سی بی آئی کے حوالے سے فوائد اور نقصانات کا جائزہ لیا اور خاص طور پر حالیہ ایس بی پی ترمیمی ایکٹ کے اثرات کے حوالے سے کی گئی پینل کی بحث کو سمیٹا۔

Advertisement

ان کے مطابق پاکستان نے کورونا وائرس  کی وبا کو بہت اچھی طرح سے سنبھالا اور حکومت پاکستان کے فیصلوں کی حمایت اور افادیت میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا اہم کردار تھا۔

نئے ایکٹ میں کی گئی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے انہوں نے امید ظاہر کی کہ حکومت مالیاتی انتظام پر اپنا اختیار نہیں کھوئے گی، خاص طور پر اگر وبائی مرض جیسا بحران دوبارہ پیدا ہو جائے۔

انہوں نے پینل کے اتفاق کو دہرایا کہ شفافیت، جوابدہی، اور مواصلات اچھی مرکزی بینکنگ کے لیے آزادی سے زیادہ اہم ہیں۔

ویبینار میں بینکرز، اسکالرز، صحافیوں اور بین الاقوامی امور اور معاشیات کے طلباء نے شرکت کی، جنہوں نے انٹرایکٹو سوال و جواب کے سیشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
ملک بھر میں سونے کی قیمت میں بڑا اضافہ ریکارڈ
گاڑیاں اور گھر خریدنے کے خواہشمند افراد کے لئے بڑی خبر
بینک سے پچاس ہزار سے زائد رقم نکلوانے پر کتنا ٹیکس کٹے گا؟ بڑی خبر آگئی
گاڑی خریدنے کے خواہشمندوں کیلئے بڑی خوشخبری
بھاری بلوں سے تنگ عوام کیلئے اچھی خبر آگئی
تنخواہ دار طبقے کیلئے تشویشناک خبر آگئی
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر