اسلام آباد: سپریم کورٹ میں دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ بھٹو صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کا پابند ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ نے ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس کیس کی سماعت کی، تاہم جسٹس طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی لارجر بینچ کا حصہ تھے۔
عدالتی معاون خالد جاوید خان کے دلائل
سماعت کے آغاز پر عدالتی معاون خالد جاوید خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کیس کا ٹرائل دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا، سپریم کورٹ اس حد تک ضرور قرار دے سکتی ہے کہ بھٹو کیس غلط طریقے سے چلایا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کا پابند ہے، جس پر عدالتی معاون نے کہا کہ سیاسی مقاصد کے علاوہ دیگر معاملات پر عدالت رائے دینے کی پابند ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میرے خیال میں عدالت بھٹو کیس میں صرف ٹرائل شفاف ہونے کی حد تک دیکھ سکتی ہے، خالد جاوید خان نے کہاکہ عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پوری ریاستی مشینری آمر ضیا الحق کے کنٹرول میں تھی۔
چیف جسٹس نے کہاکہ ذوالفقار علی بھٹو کیس تاریخ کا وہ واحد فوجداری فیصلہ ہے جو 935 طویل صفحات پر مشتمل ہے، کیا کبھی اسے بھی طویل فوجداری فیصلہ لکھا گیا ہے تو بتائیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اتنے تفصیلی فیصلے سے لگتا ہے جن ججز نے فیصلہ دیا وہ خود بھی متفق نہیں تھے اس لیے اتنی تفصیل لکھی گئی۔
عدالتی معاون کا کہنا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس آفتاب نے تو کہہ دیا ذوالفقار علی بھٹو اچھے مسلمان نہیں تھے، سپریم کورٹ نے کہا اس میں کچھ غلط نہیں ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے یہ بھی کہا؟ کہاں لکھا ہوا ہے۔
خالد جاوید نے دلائل دیے کہ ایک ہائیکورٹ کے جج کو کسی کے اچھے مسلمان ہونے کے بارے میں بات کرنے کی کیا ضرورت تھی، اچھا مسلمان نہ ہونے کی بات بھی سپریم کورٹ کے نوٹس میں آئی، سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کے جج کی آبزرویشن کی نفی نہیں کی، سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کے جج کی بات کو غلط نہیں کہا۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائیکورٹ کے جج نے ایسی بات کی تھی، عدالتی معاون نے بتایا کہ سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ موجود ہے جس میں ہائیکورٹ کے جج کی آبزرویشن کا ذکر ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ ذوالفقار علی بھٹو کیس کا ٹرائل دوبارہ کیسے دیکھ سکتی ہے، اگر انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے تو کس طریقے سے سپریم کورٹ اب دوبارہ جائزہ لے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کسی بھی عدالت کے فیصلے کا جائزہ لے سکتی ہے، ججز کی آزادی اور ان پر ریاستی دباو ہو تو اس بات کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ بھٹو کیس میں ٹرائل کی شفافیت دیکھی جاسکتی ہے مگر طریقہ کار کا بتایا جائے، ایک صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ فوجداری کیس کا ٹرائل کیسے دوبارہ کھولے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالتی ریکارڈ پر ایسا مواد دکھائیں جس سے ثابت ہو ججز پر دباؤ تھا یا تعصب پر فیصلہ کیا گیا، ایسے میں تو کہا جائے گا ہر کیس کھولا جائے۔
عدالتی معاون خالد جاوید کا کہنا تھا کہ اگر عدلیہ آزاد ہوتی تو بھٹو کو پھانسی نہ ہوتی، بھٹو اپیل پر سپریم کورٹ میں جس عدالتی بنچ نے کیس سنا اس میں ایڈہاک ججز بھی تھے، نو رکنی بنچ نے کیس سنا بعد میں سات رہ گئے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ حال ہی میں انتخابات کیس نو رکنی بنچ نے شروع کیا پھر چھ رہ گئے تھے۔
دوران سماعت جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ نسیم حسن شاہ ایڈہاک جج کے طور پر کیس کیسے سن سکتے تھے۔
عدالتی معاون نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ آج ہم مختلف دور میں رہ رہے ہیں، اس وقت ہزاروں لوگ جیلوں میں ڈالے گئے، لوگوں کو پھانسیاں دی گئیں، اس وقت ملک میں بدترین مارشل لاء تھا، اس وقت ملٹری کورٹس کے ذریعے لوگوں کو سزائیں دی جاتی رہیں، صحافیوں کو کوڑے مارے گئے، میرے والدین کو بھی فوجی عدالت سے سزائیں دی گئیں، اس وقت ساز باز کرکے چیف جسٹس پاکستان بنے، جب بھٹو کو پھانسی دی گئی اس وقت کے حالات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایگزیکٹو کا عدلیہ پر شدید دباؤ تھا، خالد جاوید نے کہاکہ ہم ایک مختلف اختیار سماعت کے تحت کیس کو سن رہے ہیں۔
جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ کسی عدالتی فیصلے کو کالعدم قرار دیئے بغیر کیسے تعصب کا جائزہ لے سکتے ہیں، کیا ہم ٹرائل کورٹ،سپریم کورٹ اور نظرثانی کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیں، ہم ان فیصلوں کو کالعدم قرار دیے بغیر کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہاکہ اگر عدالت غلطی کرے تو اسلام کیا کہتا ہے، ہمیں سمت کو ٹھیک کرنی چاہیے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ سپریم کورٹ کے ججز آزاد نہیں تھے، ہمیں وہ مواد دکھا دیں، مارشل لاء نافذ تھا، یہ کافی نہیں ہے۔
عدالتی معاون نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ ریفرنس میں یہ پوچھا گیا عدالتی فیصلہ درست تھا یا نہیں، ملزم کو نوٹس دیے بغیر ہائیکورٹ کو بھٹو ریفرنس منتقل کر دیا گیا، میں نے مختلف ممالک کی مثالیں پیش کی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے ہاں ایسی مثال نہیں ہے، اگر پارلیمنٹ کوئی قانون بنانا چاہے تو بنا سکتا ہے، ہم پارلیمنٹ کو کوئی قانون بنانے کی ہدایت نہیں دے سکتے۔
عدالتی معاون کاکہنا تھا کہ جسٹس اطہر من اللہ کے تحریر کردہ ایک فیصلے میں کہا گیا بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ درست نہیں تھا، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ یہ تو پھر ڈیکلریشن آگیا۔
عدالتی معاون بیرسٹر صلاح الدین کے دلائل
عدالتی معاون بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ عدالتی پہلے فیصلوں کو اکثر بدلتی رہتی ہے، سوال یہ ہے کہ عدالت کیا آرٹیکل3 186 کے دائرہ اختیارمیں یہ کر سکتی ہے؟
دوران سماعت بیرسٹرصلاح الدین نے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ بھارتی سپریم کورٹ نے ٹو جی ریفرنس میں رائے دی، بھارتی سپریم کورٹ نے کہا فیصلے نہیں مگر پرنسپل آف لا کی دوبارہ تعریف ہو سکتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ آپ بھارتی فیصلوں پر اتنا انحصار کیوں کر رہے ہیں؟ جس پر عدالتی معاون نے کہاکہ میں پاکستانی فیصلوں کی طرف بھی آتا ہوں، 2013 میں ججوں کی تعیناتی کیس میں سپریم کورٹ پاکستان کا فیصلہ موجود ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہاکہ آپ کی نظر میں بھٹو کیس میں قانونی سوال کیا ہے؟ بیرسٹر صلاح الدین نے کہاکہ سوال یہ ہے کیا ایک جج کے انکشافات کے بعد فیصلہ تعصب زدہ ہے یا نہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ لگتا ہے جن ججز نے فیصلہ دیا وہ خود بھی متفق نہیں تھے اس لیے اتنی تفصیل لکھی گئی، عدالتی معاون بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت پہلے فیصلوں کو اکثر بدلتی رہتی ہے۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News