گئے دنوں کا سراغ لیکر کدھر سے آیا، کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کرگیا وہ
اس جیسے ہزاروں اشعار کے خالق اردو غزل کے رجحان ساز شاعر ناصر کاظمی کا 100واں یوم پیدائش آج منایا جا رہا ہے۔
ناصر رضا کاظمی کا قلمی نام ’ناصر کاظمی‘ ہے، وہ 8 دسمبر 1925 کو انبالہ میں پیدا ہوئے جبکہ تقسیم ہند کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کی۔
میر جدید کہلانے والے عہد ساز شاعر ناصر کاظمی کی شاعری لطیف انسانی جذبات کی بہترین ترجمان ہے۔
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو نہ مٹ جائے
بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں
اس طرح کے کئی لازوال اشعار ناصر کاظمی کی تخلیق ہیں۔ انہوں نے میر تقی میر کی پیروی کرتے ہوئے غموں کو شعروں میں سمویا اور ان کا اظہار غم پورے عہد کا عکاس بن گیا۔
چپ چپ کیوں رہتے ہو ناصرؔ
یہ کیا روگ لگا رکھا ہے
ناصر کاظمی جدید غزل کے اولین معماروں میں ہیں۔ چند مضامین لکھے اور نظمیں بھی لکھیں لیکن ان کی شناخت غزل کے حوالے سے قائم ہے جس میں کیفیت، روانی اور لہجے کی نرمی کا بڑا دخل ہے۔
کون اچھا ہے اس زمانے میں
کیوں کسی کو برا کہے کوئی
ان کا پہلا مجموعہ کلام ’برگِ نے‘ 1954 میں شائع ہوا اور منظرعام پر آتے ہی مقبولیت حاصل کرلی، ان کے دیگر شعری مجموعوں میں ’پہلی بارش‘، ’نشاطِ خواب‘، ’دیوان‘اور ’سُر کی چھایا‘شامل ہیں۔
دو مجموعے ’دیوان‘اور ’پہلی بارش‘صرف غزلوں پر مشتمل ہیں جس کی بنیاد پر ناصر کاظمی کے مقام و مرتبے کا تعین ہوتا ہے۔
اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
ناصر کاظمی کا منفرد اور دلوں کو چھونے والا اسلوبِ بیان ہی تھا جس کی بدولت آج اُن کا کلام عوام میں پہلے سے کہیں زیادہ مقبول اور محبوب نظر آتا ہے۔
وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
اردو ادب کا یہ سخن ور 2 مارچ 1972 کو کینسر کے موذی مرض کے سبب اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ ناصر کاظمی کی قبر کے کتبے پر اُنہی کا یہ زبان زد عام شعر درج ہے۔
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا















