پاکستان میں انفلوئنزا کی نئی قسم نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ۔ سینیٹ میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور صحت کے خطرات سے متعلق ایک اہم انکشافات سامنے آئے ہیں ۔
یہ بات سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی کے اجلاس میں سامنے آئی۔ چیئرمین سینیٹر شیری رحمان نے بتایا کہ این آئی ایچ نے ملک میں انفلوئنزا کی ایک نئی قسم کی نشاندہی کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس وائرس کے تدارک کےلئے ملک میں ویکسین ابھی تک ملک میں دستیاب نہیں۔ ان کا کہناتھاکہ اس نئی قسم کے انفلوئنزا کی موجودگی ایک سنگین صحت کے بحران کی نشاندہی کرتی ہے۔
شیری رحمان نے کہاکہ اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
فضائی آلودگی کی سنگینی
انہوں نے نے پشاور اور لاہور میں فضائی آلودگی کی بڑھتی ہوئی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ پی پی سینیٹر نے کہا کہ پشاور شدید آلودگی کی لپیٹ میں ہے، اور لاہور کی صورتحال بھی بہت تشویشناک ہو چکی ہے۔
ان کا کہناتھاکہ خاص طور پر کھلی فضا میں کام کرنے والے افراد کے لیے یہ آلودگی بہت بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ فضائی معیار انتہائی خراب ہو چکا ہے اور اس کا اثر عوامی صحت پر پڑ رہا ہے۔
کاربن بارڈر میکنزم اور صنعتی آلودگی
صنعتی ایسوسی ایشنز کی جانب سے کاربن بارڈر میکنزم پر عملدرآمد کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے۔ ان اداروں کو کمیٹی میں طلب کرنے کی ضرورت پر زور دیاگیا۔
شیری رحمان کا کہنا تھا کہ آلودگی میں سب سے زیادہ اضافہ صنعتی زونز میں ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہناتھاکہ اس حوالے سے یکساں ماحولیاتی پالیسی کے نفاذ کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھٹہ خانوں میں ‘زگ زیگ’ ٹیکنالوجی کا استعمال ہونا چاہیے۔
میتھین گیس اور آلودگی
شیری رحمان نے اس بات پر زور دیا کہ میتھین گیس کا اخراج دیگر تمام گیسوں سے زیادہ خطرناک ہے ۔انہوں نے اس پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت دیا۔
علاوہ ازیں انہوں نے سوال کیا کہ بھٹہ خانوں کو کتنے دن کام کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
درختوں کی کٹائی اور آلودگی پر تشویش
دریں اثنا شیری رحمان نے کہا کہ انہیں درختوں کی کٹائی کی روزانہ تصاویر موصول ہو رہی ہی۔ ان کا سوال تھا کہ فضائی آلودگی کو نظرانداز کیوں کیا جا رہا ہے؟۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب اور سندھ میں ماحولیاتی اقدامات کو بہتر طریقے سے نافذ کیا جانا چاہیے۔



















