Tue, 21-Oct-2025

کوئی خبر دستیاب نہیں۔

تازہ ترین

No posts found in the last 30 days.

کراچی، مین ہول میں گرنے والا بچہ دس گھنٹے بعد بھی نہ مل سکا، عوام مشتعل

 کراچی : گلشن اقبال میں نیپا چورنگی کے قریب کھلے مین ہول میں گرنے والا بچہ دس گھنٹے گزرنے کے بعد بھی مل نہیں سکا۔

کھلے مین ہول میں گرنے والے تین سالہ بچے کے واقعے نے شہر بھر میں غم اور غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ ریسکیو ذرائع کے مطابق رات بھر کوششوں کے باوجود کمسن ابراہیم کو تلاش نہیں کیا جاسکا، جس کے بعد عوام میں شدید اشتعال پھیل گیا۔

علاقے کے مکینوں نے بچے کی عدم بازیابی پر حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور احتجاج شروع کردیا، جس کے نتیجے میں ریسکیو اہلکاروں نے اپنا آپریشن روک دیا۔

مزید پڑھیں: ہیوی ٹریفک نے کراچی کو مقتل گاہ بنا دیا، رواں سال 230 جنازے، 10 ہزار سے زائد زخمی

احتجاج کے دوران صورتحال اس وقت مزید کشیدہ ہوگئی جب مشتعل افراد نے میڈیا کے عملے اور گاڑیوں پر پتھراؤ کیا، صحافیوں کو کوریج سے روکا اور ڈی ایس این جی وین کو نقصان پہنچایا۔

مظاہرین نے ایک بار پھر ٹائر جلا کر سڑکیں بند کردیں، جس سے ٹریفک معطل ہوگیا۔

عینی شاہدین اور ریسکیو حکام کے مطابق خاندان شاپنگ کے لیے ایک اسٹور آیا تھا، جہاں سے نکلتے ہی بچہ سڑک کی طرف بھاگا اور اسٹور کے قریب موجود کھلے مین ہول میں جا گرا۔ حکام کا کہنا ہے کہ مین ہول پر ڈھکن موجود نہیں تھا جو اس حادثے کی بنیادی وجہ بنی۔

بچے کے والدین  کا کہنا ہے کہ ابراہیم ان کا اکلوتا بیٹا ہے اور وہ شاہ فیصل کالونی کے رہائشی ہیں، وہ شدت غم سے نڈھال ہو کر حکام سے فوری کارروائی کی اپیل کرتے رہے۔

مزید پڑھیں: موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہی کراچی میں گیس کی بندش؛ شہری پریشان

جائے وقوعہ پر اب بھی بڑی تعداد میں شہری اور اہلخانہ موجود ہیں، جبکہ صورتحال کشیدہ ہے اور ریسکیو ٹیمیں بچے کو نکالنے کے لیے مزید حکمتِ عملی ترتیب دے رہی ہیں۔

ترجمان سندھ حکومت کے مطابق ڈپٹی میئر کراچی سلمان عبداللہ مراد نے واقعے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے تمام انتظامیہ کو موقع پر طلب کرلیا ہے۔

ڈپٹی میئر نے کہا ہے کہ جس بھی افسر یا ادارے کی غفلت ثابت ہوئی، اس کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے گی۔

ترجمان نے بتایا کہ بچے کو نکالنے کے لیے ریسکیو آپریشن جاری ہے اور اس مقصد کے لیے تمام اداروں سے تعاون لیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں شاہ فیصل کالونی میں ہونے والے اسی نوعیت کے واقعے کے بعد بھی ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی گئی تھی، لہٰذا موجودہ کیس میں بھی کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔

مزید پڑھیں: کراچی میں ڈاکو راج ، 7 سالہ بچے کو موبائل فون نہ دینے پر گولی مار دی

حکومتِ سندھ کے ترجمان نے مزید کہا کہ یہ مسئلہ میئر اور ڈپٹی میئر کی حدود کا تعین کرنے والا معاملہ نہیں بلکہ انسانی جان کا مسئلہ ہے، اس لیے تمام محکمے ایک ساتھ کام کر رہے ہیں۔

واقعے کی تحقیقات کے حصے کے طور پر یہ بھی چیک کیا جارہا ہے کہ مین ہول کا ڈھکن کب سے غائب تھا اور کس محکمے کے ماتحت آتا تھا۔

ترجمان کے مطابق علاقے میں جاری ترقیاتی کام کی وجہ سے وہاں کے سیکیورٹی کیمرے کام نہیں کر رہے تھے، جس سے معلومات کے حصول میں مشکلات پیش آئیں۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ماضی میں مین ہولز کے ڈھکنوں پر ٹریکنگ سسٹم لگانے کی تجویز پیش کی گئی تھی لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ موجودہ واقعے کے بعد ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور معاملے کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔