برطانوی خاتون رکن پارلیمنٹ کا الزام ہے کہ انہیں مسلمان ہونے کی وجہ سے وزارت سے فارغ کیا گیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سابق جونیئر ٹرانسپورٹ منسٹر نصرت غنی کہتی ہیں کہ انہیں وزیر اعظم بورس جانسن کی کنزرویٹو حکومت میں وزارتی ملازمت سے برطرف کیا گیا تھا کیونکہ ان کا مسلم عقیدہ ساتھیوں کو بے چین کر رہا تھا۔
انتالیس سالہ نصرت غنی کا کہنا تھا کہ انہیں وہپ جو پارلیمانی ڈسپلن کا نفاذ کرنے والے ہیں انہوں نے بتایا تھا کہ ان کی “مسلمانیت” کو ایک مسئلے کے طور پر اٹھایا گیا تھا۔
‘مجھے بتایا گیا کہ ڈاؤننگ اسٹریٹ میں ردوبدل کے اجلاس میں ‘مسلمانیت’ کو ‘مسئلہ’ کے طور پر اٹھایا گیا تھا، کہ میری ‘مسلم خاتون وزیر’ کا درجہ ساتھیوں کو بے چین کر رہا تھا’۔
وزیر اعظم کے دفتر سے ان کے تبصروں پر فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، لیکن حکومت کے چیف وہپ مارک اسپینسر نے کہا کہ وہ نصرت غنی کے الزامات کے مرکز میں تھے۔
اپنے ردعمل میں اسپینسر نے کہا کہ نصرت غنی نے اس معاملے کو باضابطہ داخلی تحقیقات میں ڈالنے سے انکار کر دیا تھا جب انہوں نے پہلی بار گزشتہ مارچ میں یہ مسئلہ اٹھایا تھا۔
واضح رہے کہ کنزرویٹو پارٹی کو پہلے بھی اسلامو فوبیا کے الزامات کا سامنا رہا ہے اور گزشتہ سال مئی میں ایک رپورٹ میں اس پر تنقید کی گئی تھی کہ اس نے مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کی شکایات سے کیسے نمٹا ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News