Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

تحریک عدم اعتماد اور اس سے جڑی آئینی شقیں آسان الفاظ میں جانیے

Now Reading:

تحریک عدم اعتماد اور اس سے جڑی آئینی شقیں آسان الفاظ میں جانیے

منگل کے روز قومی اسمبلی میں جمع کرائی گئی تحریکِ عدم اعتماد کی گونج ریاستی ایوانوں سے نکل کر اب گھر گھر تک پہنچ گئی ہے۔

متحدہ حزب اختلاف اس تحریک کے زریعے عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے ہٹانا چاہتی ہے، جبکہ حکومت  اپنے دفاع کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔

اس لیے جاننا ضروری ہے کہ آخر یہ تحریک عدم اعتماد کیا بلا ہے کہ اس سے اچھے اچھوں کے پسینے کیوں چھوٹ جاتے ہیں۔

تحریکِ عدم اعتماد کیا ہے؟

تحریک عدم اعتماد جسے انگریزی میں “No Confidence Motion” بھی کہا جاتا ہے، کی بات ہو تو چند اصطلاحات مثلاً نمبر گیم، فلور کراسنگ، اوپن یا سیکرٹ بیلٹ اور آئینی تقاضے وغیرہ بڑے تواتر سے استعمال ہوتی ہیں۔

Advertisement

پاکستان میں پارٹی بنیادوں پر انتخابات ہوتے ہیں اور جو پارٹی یا پارٹیاں ایوانِ زیریں جسے پاکستان میں قومی اسمبلی کہا جاتا ہے، میں اراکین کی اکثریت حاصل کرلیں، وہ اپنا پارلیمانی لیڈر منتخب کرتی ہیں جو وزیر اعظم کہلاتا ہے۔

جبکہ وہ جماعتیں جن کے اراکین کی مجموعی تعداد کم ہو، حزبِ اختلاف یا اپوزیشن کہلاتی ہیں۔

اپوزیشن بھی اپنا ایک پارلیمانی لیڈر منتخب کرتی ہیں جو قائد حزبِ اختلاف کہلاتا ہے۔

اگر اپوزیشن حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہ ہو یا حکومت گرانا چاہے تو آئینی طور پر اسے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانی ہوگی۔

یہی کچھ ان دنوں پاکستان میں ہو رہا ہے۔

اپوزیشن جماعتیں متحد ہوکر حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور کرانے کی کوشش کررہی ہیں۔

Advertisement

اس عمل کے لیے بھی آئین میں باقاعدہ ایک طریقہ کار درج ہے۔

وزیرِ اعظم پاکستان کو اُن کے عہدے سے ہٹانے کے لیے قومی اسمبلی کے اراکین کی مجموعی تعداد کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔

یہاں پر “نمبرز گیم” کی اصطلاح سامنے آتی ہے۔

فریقین کا دعویٰ ہوتا ہے کہ ان کا نمبر گیم پورا ہے، یعنی ان کے پاس ارکان کی مطلوبہ تعداد موجود ہے۔

پاکستان میں قومی اسمبلی کے اراکین کی کل تعداد 342 ہے، جس میں سادہ اکثریت 172 بنتی ہے۔

تحریک عدم اعتماد میں آئینی شقوں کا عمل دخل

Advertisement

تحریکِ عدم اعتماد کی کارروائی آئین کی شقوں کے تحت ہوتی ہے۔

یہ کارروائی آئین کے آرٹیکل 95 اور قومی اسمبلی کے رولز آف بزنس 2007 کے رول 37 کے تحت ہوگی۔

آئین کے تحت تحریک پر تین دن سے پہلے اور سات دن کے بعد ووٹنگ نہیں ہو سکتی۔

یعنی تین سے سات دن کے عرصے میں ووٹنگ ہوگی اور اس ووٹنگ سے پہلے اور بعد میں ایک طویل آئینی طریقہ کار اپنانا ہو گا۔

اوپن یا سیکرٹ بیلٹ

رولز آف پروسیجر کے تحت تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ اوپن ہوتی ہے۔ قواعد کے تحت سیکریٹ ووٹنگ نہیں ہو سکتی، کیونکہ تحریک اعتماد کے لیے “قرارداد” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور رولز آف پروسیجر کے تحت جو ضابطے بنائے گئے ہیں، قومی اسمبلی میں کسی بھی قرارداد پر ووٹنگ اوپن ہوتی ہے۔

Advertisement

فلور کراسنگ کیا ہے؟

فلور کراسنگ کا عمومی مطلب کسی حکومتی رکن کا مخالف پارٹی کے حق میں ووٹ دینا لیا جاتا ہے۔ تاہم، یہ ادھوری تعرید ہے۔

اگر ایک پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والا قومی اسمبلی کا کوئی رکن اپنی پارٹی سے مستعفی ہو کر کسی دوسری پارٹی میں شامل ہو جائے تو وہ نا اہل ہو جائے گا۔

یعنی اس کی اسمبلی رکنیت ختم ہو جائے گی۔

آئین کی دفعات 62، 63 اور ان کی بعض ذیلی دفعات کے تحت اگر کوئی رکن اسمبلی وزیر اعظم یا کسی صوبے میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب یا ان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد یا تحریک اعتماد اور آئینی ترامیم کے سلسلے میں اپنی پارلیمانی پارٹی کے فیصلے کے خلاف ووٹ دے، ووٹنگ میں حصہ نہ لے یا ووٹنگ دوران ایوان سے غیر حاضر رہے تب بھی وہ نا اہل ہو جائے گا اور اس کی رکنیت ختم ہو جائے گی۔

اپنی پارلیمانی پارٹی کے فیصلے کے خلاف ووٹ دینے کی پاداش میں اس رکن اسمبلی کی رکنیت تو ختم ہو جائے گی، لیکن جو ووٹ اس نے دیا ہے، اسے درست مانا جائے گا اور اسے شمار کیا جائے گا۔

Advertisement

ان تمام صورتوں کے باوجود کوئی رُکن اس وقت تک خود بخود نا اہل نہیں ہوتا جب تک اس پارٹی کا سربراہ اس کے لیے کارروائی کا آغاز نہ کرے۔

پھر ایک طویل کارروائی سے گزر کر نااہل ہونے کی نوبت آتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر موجودہ صورت حال میں اپوزیشن دعوے کے مطابق سرکاری پارٹی کے بعض اراکین کی مدد سے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور بھی کرا لیتی ہے تو پارٹی کے خلاف ووٹ دینے والے ارکان نا اہل ہو جائیں گے اور اپوزیشن کی اکثریت پھر اقلیت میں بدل جائے گی، اس طرح اپوزیشن پھر سے اپنا نیا وزیر اعظم منتخب کرانے سے رہ جائے گی۔

اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے عام طور پر تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے والی حکومتی پارٹی اپنے ارکان کو ایوان سے باہر رکھتی ہے اور اندر نہیں آنے دیتی۔

یعنی وہ نہ اندر آئیں گے، نہ فلور کراسنگ کر پائیں گے، نہ مطلوبہ ارکان کی تعداد پوری ہوسکے گی اور نتیجتاً تحریک ناکام ہو جائے گی۔ اس نوعیت کے ہتھکنڈے دونوں جانب سے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

اس کی تازہ مثال حال ہی میں پی ٹی آئی کی جانب سے جلسے کا اعلان ہے اور فواد چوہدری کہہ چکے ہیں کہ یہ جلسہ حکومتی اراکین کو ووٹنگ سے روکنے کے لیے کیا جارہا ہے۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
حکومت نےآئی ایم ایف کی ایک اورشرط پوری کر دی
جس نےبندوق اٹھائی اس سےسختی سےنمٹیں گے، میرسرفراز بگٹی
ترک بری افواج کے کمانڈر کو نشان امتیاز ملٹری دے دیا گیا
غزہ میں امن کے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا،وزیراعظم شہبازشریف
مولانا فضل الرحمان کا 2 مئی کو کراچی میں ملین مارچ کا اعلان
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا دو ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی کا اعلان
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر