سپریم کورٹ آف پاکستان نے دو بارعمر قید پانے والے مجرم ندیم ولی اور جاوید اقبال کو ریلیف دیدیا۔
23سال بعد سزاکاٹنے والے مجرم پر انسداد دہشتگردی ایکٹ کی دفعات ختم کر دی گئی، 2001میں لاہوراورچکوال کے واقعات میں الگ الگ سزائیں دی گئی تھی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اغوا کا واقعہ لاہور میں ہوا تو پولیس پر فائرنگ چکوال میں کیسے ہوگئی؟ جس پروکیل سلمان صفدرنے کہا کہ چکوال پولیس کو خود کیسے پتہ چلا کہ مغوی لاہورکی بجائے یہاں ہے؟ پولیس حملہ میں گرفتار ہونیوالوں میں کوئی زخمی بھی نہیں ہوا۔
جسٹس حسن اظہررضوی نے کہا کہ جہاں پولیس مقابلہ ہو وہاں وہ پولیس کسی کو زندہ نہیں چھوڑتی، یہ کیسا پولیس مقابلہ تھا جہاں تین پولیس والے مرگئے اورگرفتار ملزمان کو خراش بھی نہیں آئی؟
جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ ایک وقت تھا جب سندھ، بلوچستان، کے پی سے لوگ سامنے اٹھائے جاتے تھے، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں دہشتگرد تنظیموں کے لوگ کرتے تھے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ بڑے بڑے سرمایہ کاروں کو اغوا برائے تاوان کیلئے اٹھایا جاتارہا۔
جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ کیا پولیس پر حملہ کرنا دہشتگردی میں نہیں آتا؟
وکیل سلمان صفدرنے کہا کہ پولیس پرحملہ نہیں ہوا، پولیس نے گھر پرچھاپہ مارا تھا، ایک ہی واقعہ کا الگ لگ عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہوسکتا تھا، جرم کرنیوالا اورمغوی دوست تھے اورکاروبار کرتے تھے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ دوست اور قریبی رشتہ داروں کیساتھ بزنس ہی نہیں کرنا چاہیے۔
جسٹس جمال مندوخیل کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔
ندیم ولی اور جاوید اقبال کو حسیب احمد کو اغوا کرنے اور چکوال پولیس پر فائرنگ کرنے کے الزام میں دوبار عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News