لداخ میں کارگل ڈیموکریٹک الائنس اور لیہ ایپکس باڈی کی جانب سے مکمل شٹر ڈاوٴن ہڑتال کی کال دی گئی ہے۔
اگست 2019 میں بھارتی انتہا پسند حکومتی جماعت بی جے پی نے کشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ لداخ کو بھی تقسیم کر دیا تھا۔
مودی سرکار نے لداخ کو براہ راست نئی دہلی سے چلانے کے فیصلہ کیا جس سے خطے کی جمہوری پسماندگی نے جنم لیا۔
مقامی لوگ لداخ کو ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں جو کہ بھارتی آئین کے مطابق ریاست کو قانون سازی، عدالتی اور انتظامی خود مختاری اور خود مختار انتظامی ڈویژنوں کی تشکیل کی اجازت دیتا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق لداخ کے رہنماوٴں نے کہا کہ وہ بھارتی نظام کے تحت موجودہ بیوروکریٹک سیٹ اپ میں سیاسی نمائندگی کھو چکے ہیں۔
نئی دہلی کی سرکار کی جانب سے منظور کیے گئے نئے قوانین سے لداخ کے مقامی لوگ شدید پریشانی کا شکار ہیں۔
6 مارچ 2024ء کو لیہہ میں سیکڑوں لوگوں نے بھارتی وزارت داخلہ کے ساتھ مذاکرات کیے جو بے نتیجہ رہے۔
لداخ کے سماجی کارکن سونم وانگچک نے بھوک ہڑتال کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم آئینی معاملات کی منتقلی کا مطالبہ چاہتے ہیں کیوں کہ ہماری قبائلی شناخت کو خطرہ ہے۔
سماجی کارکن سونم وانگچک کا کہنا تھا کہ بھارت نے لداخ میں ہماری زمینوں پر قبضہ کرتے ہوئے فوجی انفراسٹرکچر کھڑا کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نئی دہلی سے اس علاقے کو براہ راست چلانے کے حکومت کے فیصلے نے خطے کی جمہوری پسماندگی، ترقیاتی منصوبوں میں کمی اور ماحولیاتی طور پر حساس ہمالیائی خطے کی عسکریت پسندی کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔
ممبر کارگل ڈیموکریٹک الائنس کہتے ہیں کہ مرکزی حکومت لداخ کے لیے ریاست کی بحالی کے مطالبات کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
مودی سرکار جو دنیا بھر میں جمہوریت پسندی اور سیکولر ازم کا نعرے لگاتی ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ وہ اپنے ہی لوگوں کو ان کے آئینی حقوق دینے سے انکاری ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News