Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

جیا ہوں اُمیدِ شفا کرتے کرتے

Now Reading:

جیا ہوں اُمیدِ شفا کرتے کرتے

سسٹک فائبروسِس کی نئی دوا- امید کی کرن

جان لیوا اور لاعلاج مرض کی نئی دوا اس بیماری میں مبتلا ہزاروں افراد کی زندگیاں بہتر بناسکتی ہے۔

دنیا بھر میں اس وقت لگ بھگ 70 ہزاررجسٹرڈ مریض سسٹک فائبروسس (سی ایف) کے شکار ہیں جس میں بدن کے اندر لیس دار چپکنے والا مادہ جمع ہوتا رہتا ہے۔ یہ پہلے پھیپھڑوں، پھر آنتوں اور جسم کے دیگر حصوں تک پہنچ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ پیچیدگیاں پیدا ہونے سے مریض کی جان جاسکتی ہے۔

دوسری صورت میں سی ایف کے شکار مریض بار بار انفیکشن کے شکار ہوتے رہتے ہیں اور یوں ان کی زندگی کا دورانیہ کم سے کم تر ہوتا جاتا ہے۔

لیکن جب ڈیوڈ فینٹ کو امریکا میں کیف ٹرائیو اور یورپ میں ٹرائی کافٹا نامی تین گولیوں کا مجموعہ دیا گیا تو ان کی صحت بہتر ہونے لگی کیونکہ امریکا میں سال 2019 میں ان گولیوں کی منظوری دی گئی تھی۔

Advertisement

امریکا میں غیرمنافع بخش این جی او دی سسٹک فائبروسس فاؤنڈیشن کے مطابق ایک عشرے قبل سسٹک فائبروسس کے شکار افراد اوسطا صرف 38 سال ہی جی پاتے تھے لیکن اب یہ شرح کچھ بہتر ہوئی ہے اور یوں 2017ء سے لے کر 2021ء تک جنم لینے والے مریضوں کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ اندازاً 53 برس تک زندہ رہیں گے۔

تاہم کیف ٹرائیو کی دوا سسٹک فائبروسس کے علاج میں ایک سنگِ میل ثابت ہوئی ہے کیونکہ یہ جینیاتی سطح پر جاکر گہرائی میں علاج کرتی ہے۔ یہ انسانی جسم میں سی ایف ٹی آر جین کو بہتر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

اپنے پرامید خواص کی بنا پر اگست 2020ء میں برطانیہ اور پھر یورپی یونین کی ادویاتی ایجنسی نے اس کے استعمال کی منظوری دیدی تھی۔

 تاہم فرانس میں سسٹک فائبروسس کے مریضوں کی تعداد صرف 7 ہزار 500 ہے اور ان میں سے صرف 40 فیصد مریضوں کو اس علاج سے سہولت حاصل  کرسکتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ 6 برس سے کم عمر کے بچوں کو یہ دوا نہیں دی جاسکتی ہے اور 15 فیصد مریضوں کی جینیاتی ترکیب کچھ اس طرح ہے کہ ان پر یہ دوا اثر نہیں کرتی۔ پھر 900 مریض ایسے ہیں جنہیں کسی نہ کسی اعضا مثلا گردے، جگر اور پھیپھڑے لگائے گئے ہیں  اور یوں ان کے لیے بھی یہ دوا کسی طرح موزوں نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جب 41 سالہ سبرینا پارکس فرانس میں اس انقلابی دوا استعمال کرنے کی امید لے کر آئیں تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ کیف ٹرائیو ان کے لیے موزوں نہیں کیونکہ 15 برس قبل انہوں نے ایک عضو کی پیوندکاری کرائی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ناامید ہوکر فرانس سے واپس لوٹی ہیں۔

Advertisement

انہوں نے کہا کہ ’’یہ میرے لیے ایک کٹھن مرحلہ تھا ‘‘۔ جب جب آپ کسی عضو کی پیوندکاری کراتے ہیں تو گویا سر پر ایک تلوار لٹکی رہتی ہے کیونکہ جسم دوسرے عضو کو کسی نہ کسی موڑ پر مسترد یا رجیکٹ کرسکتا ہے۔

’ سبرینا نے کہا کہ میں یہ کہتی ہوں کہ ہمیں کسی بھی طرح فراموش نہ کیا اور محققین کو چاہیئے کہ وہ تمام مریضوں کے لیے ایک حل کی تلاش جاری رکھے۔

دوسری جانب ڈیوڈ فینٹ نے سسٹک فائبروسس کے روایتی علاج کو ناکافی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ طریقہ علاج اتنا برا ہے کہ میں بتانہیں سکتا کہ میں علاج کے لیے جی رہا ہوں یا جینے کے لیے علاج کروارہا ہوں۔

پھر فینٹ نے یہ بھی بتایا کہ جب وہ پھیپھڑے کے عطیات کی قطار میں تھا تو اسے روزانہ آکسیجن تھراپی اور چھ گھنٹے تک مکمل دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ پورے سال میں 3 سے 4 ہفتوں تک اینٹی بایوٹکس انفیوژن کے عمل سےگزرنا پڑتا تھا۔

پھر یوں ہوا کہ اس نئے طریقہ علاج کا قرعہ ڈیوڈ فینٹ کے نام کھلا اور انہوں نے جان لیوا جینیاتی مرض کے لیے نئی امید افزا ادویہ کی آزمائش شروع کی۔

فینٹ نے بتایا کہ ’میں نے سب سے پہلے صبح کو یہ دوا کھائی تو عین اسی روز 3 بجے دوپہر کو اس کے مثبت اثرات سامنے آنا شروع ہوگئے‘۔

Advertisement

فینٹ جن کی عمر 40 برس ہے انہوں نے بتایا کہ وہ پہلی مرتبہ خود نہانے کے قابل ہوئے اور ایک ساتھ پندرہ زینے چڑھ گئے۔ ’ سب سے بڑھ کر میں اپنی بیٹی کے ہمراہ باہر گیا اور اسے کامک کی کتابیں دلوائیں‘۔

جب دوا کھانے کے بعد وہ ڈاکٹروں کے پاس پہنچا تو ڈاکٹر یہ جان کر حیران ہوگئے کہ پھیپھڑوں کے کئی مقامات تک ہوا کا نفوذ ہورہا تھا جو اس سے قبل نہیں دیکھا گیا تھا۔

اس کے بعد فینٹ اتنے پرامید ہوئے کہ روزانہ چھ گھنٹے ان کی نگہداشت کا دورانیہ بھی ختم ہوگیا اور یوں اب انہیں نے فرانس میں ایک تنظیم کی بنیاد رکھی ہے جسے ’سسٹک فائبروسس کی شکست‘ کا نام دیا گیا ہے۔

اگراس دوا کے اثرات معجزانہ نہیں تو حیران کن ضرور ہیں جبکہ اب بھی دنیا میں اس کا علاج موجود نہیں۔ اس ضمن میں دنیا بھر میں مختلف طریقہ ہائےعلاج پر تحقیق جاری ہے اور جینیاتی پہلووں سے بھی معالجے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تاہم پیشرفت کچھ تیزرفتار نہیں۔

لیکن اب بھی یہ سوال درپیش ہے کہ نئی دوا اس مرض کو مکمل ختم کرسکتی ہے یا اس کی رفتار کو سست کررہی ہے، اس کا جواب تو وقت ہی دے سکتا ہے۔

اگرچہ فرانس میں سسٹک فائبروسس کے مریضوں میں انسانی اعضا کی منتقلی کی رفتار کم ہوئی ہے ۔ یعنی 2019ء سے 2021ء تک25  فیصد مریضوں میں پھیپھڑے کی منتقلی کی شرح 21 تھی جو اب صرف 2 فی سہہ ماہی رہ گئی ہے۔ یہ ایک امید افزا بات ہے۔

Advertisement

لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ اس طرح ٹرانسپلانٹ کا عمل 10 سے 15 برس ٹالا گیا ہے یا اس کی ضرورت ختم ہوچکی ہے۔ تاہم کیف ٹرائیو اس تناظر میں کئی مریضوں کی امید بن کر سامنے آئی ہے۔

(بشکریہ اے پی)

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
آئی ایم ایف کے پاس جانا ناکامی کی علامت ہے، شاہد خاقان عباسی
ورلڈ اکنامک فورم، وزیر اعظم کی امیر کویت سے ملاقات
بطور وزیر اعظم میں نے 58-2 بی کا خاتمہ کیا، یوسف رضا گیلانی
چینی برآمد کرنے کا جلد از جلد فیصلہ کیا جائے، شوگر ملز ایسوسی ایشن
مولانا فضل الرحمان کا ذمہ داران سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب
کالی چائے کے ٹیکس چھوٹ کا غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر