Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

ایک کٹھن کام

Now Reading:

ایک کٹھن کام

ایک بار پھر، پاکستان تیزی سے دیوالیہ ہونے جارہا ہے، کیونکہ جی 7 ممالک اور پیرس کلب سمیت بین الاقوامی عطیہ دہندگان نے سیلاب کی وجہ سے قرضوں میں سہولت اورملک کودرپیش مسائل پرقابو پانے کے لیے وزیراعظم شہبازشریف کی درخواست پرکان نہیں دھرے ہیں۔

اس کےعلاوہ بین الاقوامی منڈی میں پاکستان کے ڈالربانڈزمیں تیزی سےکمی ہوئی جب کہ حکام کو سیلاب کی تباہی سے ہونے والے نقصانات کا کوئی علم نہیں۔

نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (یو این جی اے) کے 77ویں اجلاس سے اپنے خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف نے سیلاب کے باعث پاکستان کی حالت زارپرروشنی ڈالی اورعالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ مدد کیلئے ہاتھ آگے بڑھائیں،اس سے پہلے کہ بہت دیرہوجائے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ان کی تقریر کا مقصد موسمیاتی تباہی کے پیمانے اورشدت کو واضح کرنا تھا جس نے پاکستان کے ایک تہائی حصے کوایسی صورتحال سے دوچار کردیا ہے جس سے پہلے کسی کا سامنا نہیں ہوا۔

انہوں نے مزید کہا کہ 40دن اور40 راتوں تک، سیلابی پانی ہم پربرستا رہا۔ آج بھی ملک کا بڑا حصہ زیرآب ہے۔ خواتین اوربچوں سمیت تقریباً 33 ملین افراد کو صحت کے خطرات لاحق ہیں۔ ہمارے 15سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں 4سو بچے بھی شامل ہیں۔جب کہ ایک بڑی تعداد بہت زیادہ خطرے میں ہیں ۔

Advertisement

شہبازشریف نے کہا کہ مستقبل نئی نزاکتوں، مکانات سے محرومی،تباہ شدہ ذریعہ معاش،سیلاب زدہ فصلوں، مستقل غذائی عدم تحفظ اورغیر یقینی مستقبل کی وجہ سے دھندلایا ہوا ہے۔

شہبازشریف نے کہا کہ ابتدائی نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر لگایا گیا ہے، انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس سے فوری طور پرعطیہ دہندگان کی کانفرنس بلانے کو کہا، جس سے اقوام متحدہ کے سربراہ نے اتفاق کیا۔

تاہم، وزیر اعظم کی ایس او ایس کال نے بین الاقوامی مارکیٹ میں افراتفری پیدا کر دی، جیساکہ دسمبر میں میچورہونے والے ملک کے ڈالربانڈزکی تقریباً 11 سینٹ گرکر 81اعشاریہ9 سینٹ پر تجارت ہوئی،جب کہ اس کا 2031ء میں میچور ہونے والا ڈالربانڈ تقریباً 7 سینٹ گر کر 40اعشاریہ33 سینٹ پرٹریڈ ہورہا تھا۔

صورتحال کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئےسابق  وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے سرمایہ کاروں کے اعصاب کو پرسکون کرنے کے لیے فوری طورپرایک ٹویٹ پرردعمل دیا۔

انہوں نے ٹویٹ کیا کہ پاکستان میں موسمیاتی تباہی کے پیش نظر، ہم پیرس کلب سے قرض میں ریلیف کے خواہاں ہیں۔ ہم کمرشل بینکوں یا یورو بانڈ قرض دہندگان سے نہ تو کوئی ریلیف مانگ رہے ہیں اور نہ ہی ہمیں ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس دسمبر میں 1 ارب ڈالرکا بانڈ واجب الادا ہے،جسے ہم بروقت اور مکمل ادائیگی کریں گے۔ ہم اپنے تمام تجارتی قرضوں کی ادائیگی کرتے رہے ہیں اورکرتے رہیں گے۔ ہمارا یورو بانڈ کا قرض 2051ء تک صرف 8 ارب ڈالرہے۔ یہ کوئی بڑا بوجھ نہیں ہے۔ ہمارے قرضوں کا ایک اہم حصہ ان دوست ممالک کا ہے جنہوں نے ہمیں اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو ری رول کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے ۔

Advertisement

وزارت خزانہ کے سابق مشیر اورنسٹ کے پرنسپل ڈاکٹراشفاق حسن خان نے کہا کہ وزیراعظم کی تقریرنے بین الاقوامی مارکیٹ میں افراتفری پیدا کردی کیونکہ انہیں وزارت خزانہ نے قرضوں کی ری شیڈولنگ پرگمراہ کیا گیاتھا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی اقتصادی ٹیم یا تونااہل ہے یا وہ جان بوجھ کر انہیں گمراہ کر رہی ہے کیونکہ پیرس کلب کا 12اعشاریہ2 ارب ڈالر کا قرضہ پہلے ہی 2001ء میں 38 سال کے لیے ری شیڈول کیا گیا تھا اوراب یہ کم ہو کر 9اعشاریہ2 ارب ڈالررہ گیا ہے۔

ان کے مطابق جی 20 ممالک نے کوویڈ 19 کی وبا کے دوران اپنے قرضوں کی ادائیگی کی مدت میں بھی توسیع کر دی ہے۔ حکومت کے پاس سیاسی ساکھ کا فقدان ہے۔

’’ ڈاکٹراشفاق حسن خان نے کہا کہ میں نے اس حکومت کے سینئرارکان اوروزراء سے بات کی۔ سچ پوچھیں تو، میں انہیں موجودہ سیاسی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے بہت بے چین اورفکر مند محسوس کرتا ہوں، جس نے انہیں کسی بھی قسم کی پہل یا خطرہ مول لینے سے روک دیا ۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے لیے پانچ سال کا واضح مینڈیٹ رکھنے والی سیاسی جماعت سخت معاشی فیصلے کر سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اس حکومت کو پانچ سال کا مینڈیٹ مل بھی جائے تو یہ ملک کے عوام کی بہتر خدمت کر سکتی ہے۔

Advertisement

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام کی منظوری کے بعد بھی روپے کی قدر میں کمی نے ان کے اس موقف کی توثیق کی کہ معاشی استحکام کا تعلق آئی ایم ایف پروگرام سے نہیں بلکہ سیاسی استحکام سے ہے۔

روپے کی گراوٹ کے بارے میں ڈاکٹراشفاق حسن خان نے کہا کہ ان کا یہ خدشہ درست ثابت ہوا کہ موجودہ سیاسی غیر یقینی صورتحال اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ناقص نگرانی نے سٹہ بازوں کو مارکیٹ میں ہیرا پھیری کرنے کی اجازت دی۔

انہوں نے کہا کہ مرکزی بینک نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے مارکیٹ کی قیاس آرائیوں میں ملوث پائے جانے والے آٹھ بینکوں کے خلاف تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے الزام لگایا کہ ایسی سرگرمی اسٹیٹ بینک کے حکام کی ملی بھگت کے بغیرناممکن ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں بینکوں کی جانب سے صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے اعتراف کے باوجود، مرکزی بینک نے اصلاحی اقدامات کیوں نہیں کیے اور لگاتاردوبرس یعنی اس سال اورگزشتہ سال کے اپنے منافع کا موازنہ کیوں نہیں کیا؟۔

اسحاق ڈار کی بطوروزیرخزانہ واپسی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار کےناقدین اورمداح دونوں ہیں لیکن اس بار معاشی صورتحال بہت مشکل ہے اوروقت ہی بتائے گا کہ وہ اسے سنبھالنے میں کامیاب ہوں گے یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ تاہم، یہ صرف پاکستان میں ہی ممکن ہے کہ ایک مفرورجس کی جائیداد اوردیگر اثاثے ضبط کر لیے گئے ہوں، اسے دوبارہ وزیر خزانہ بنا دیا جائے۔

Advertisement

انہوں نے کہا کہ اس قسم کے فیصلے مقامی اور بین الاقوامی سطح پرہمارے عدالتی نظام کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اگرچہ میں عدلیہ کے لیے بے پناہ احترام رکھتا ہوں، پھربھی اس ملک کا شہری ہونے کے ناطے میں جاننا چاہتا ہوں کہ ان کے خلاف مقدمات درست تھے یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ دریں اثنا، پلاننگ کمیشن نے سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور نقصانات کی لاگت کا تخمینہ 28 ارب ڈالر لگایا ہے جو کہ سیلاب کی تباہی کے بعد سے کسی بھی پاکستانی اتھارٹی کی جانب سے جارہ کردہ چوتھےاعداد وشمارہیں۔ اس نے تعمیر نو کی مدت 10 سال سے زیادہ ہونے کی پیش گوئی بھی کی ہے۔

28ارب ڈالر کی لاگت میں 5 فیصد کی ہدف کی شرح نمو سے کم ہونے کی وجہ 11 ارب ڈالر کے نقصانات شامل ہیں-ان اعداد و شمارکو بین الاقوامی قرض دہندگان چیلنج کرسکتے ہیں جو سیلاب سے پہلے کے منظر نامے میں بھی 3اعشاریہ5 فیصد شرح نمو کی پیش گوئی کر رہے تھے۔

پلاننگ کمیشن نے اپنے سیلاب کے بعد کے معاشی نقطہ نظر اور نقصانات کا جائزہ لینے کی ضرورت کا خاکہ شیئر کیا۔

یہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بین الاقوامی مالیاتی اداروں، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کے تعاون سے نقصان کے بعد اورضرورت کا جامع جائزہ جاری ہے۔ ابتدائی تخمینوں کو ماہرین کے ساتھ اس مقصد کے ساتھ شیئر کیا گیا تھا کہ وہ آگے بڑھنے کا راستہ تیار کرنے کے لیے ان کی معلومات حاصل کریں۔

نتائج کے مطابق، ابتدائی اندازوں کے مطابق نقصان کی حد 28 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔

Advertisement

اس سے قبل وزارت خزانہ نے 10 سے 12 ارب ڈالر کے نقصانات کا تخمینہ لگایا تھا اور پھران اعداد و شمار کو 18 ارب ڈالرکردیا۔ اسی طرح نیشنل فلڈ ریسپانس کوآرڈینیشن سینٹر نے 40 ار ڈالر کے نقصان کی پیش گوئی کی ہے۔

رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ افراط زر کا دباؤ مزید بڑھنے کی توقع ہے اوراقتصادی ترقی کی شرح 1اعشاریہ8 فیصد سے 2اعشاریہ3 فیصد تک کم ہونے کی توقع ہے۔

اس نے انکشاف کیا کہ سپلائی چین میں خلل اورخراب ہونے والی اشیاء کی قلت کی وجہ سے افراط زر کے دباؤ میں مزید اضافہ ہونے کی توقع ہے۔

11اعشاریہ 5فیصد کی اوسط مہنگائی کے ہدف کے مقابلے میں، منصوبہ بندی کمیشن کے مطابق، افراط زر 23 سے 25 فیصد کی حد میں رہنے کی توقع ہے – یہ اعداد و شمارعالمی بینک کے تخمینے سے کم ہے، جس کے مطابق رواں مالی سال میں افراط زر کی شرح 27 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔

پلاننگ کمیشن کے مطابق، سالانہ منصوبے میں مقررکردہ 5 فیصد ہدف کے مقابلے میں رواں مالی سال کے لیے جی ڈی پی کی شرح نمو کا تخمینہ 1اعشاریہ8 سے 2اعشاریہ3 فیصد لگایا گیا ہے۔ اس نے مزید کہا کہ اس کا مطلب 2اعشاریہ4 ٹریلین روپے کی آمدنی کا نقصان ہے۔

عالمی بینک نے رواں مالی سال کے لیے جی ڈی پی کی شرح نمو 1اعشاریہ4 فیصد سے 2اعشاریہ4 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے اور پلاننگ کمیشن کے تخمینے واشنگٹن کے قرض دہندہ کے تخمینہ کے مطابق ہیں۔

Advertisement

28ارب ڈالرمیں سے پلاننگ کمیشن نے تخمینہ لگایا ہے کہ صوبائی حکومتوں کے نقصانات کا حجم 10 ارب ڈالر ہے۔ پنجاب کو 5سو50 ملین ڈالر کا نقصان پہنچا۔ ملک کے سب سے زیادہ متاثرہ یونٹ سندھ کو5اعشاریہ9 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ خیبرپختونخوا 5سو40 ملین ڈالراوربلوچستان 3 ارب ڈالر کے ساتھ دوسراسب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے۔

ریلوے کی وزارت نے اپنے بنیادی ڈھانچے کو 2اعشاریہ 4 ارب ڈالرنقصان کا تخمینہ لگایا ہے۔اس کے بعد آبی وسائل کی وزارت کی طرف سے 2سو90 ملین ڈالر اورنیشنل ہائی ویزاتھارٹی کی جانب سے 2سو10 ملین ڈالر کے نقصانات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

حکومت نے اندازہ لگایا ہے کہ اسے 2017ء کے فلڈ پروٹیکشن پلان4 کے تحت حفاظتی دیواروں کی تعمیراورقبل ازوقت وارننگ سسٹم کی تنصیب اورپیشگی میٹرنگ کے لیے 4 ارب ڈالرکی ضرورت ہوگی۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ پلاننگ کمیشن کی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مئی 2017ء میں مشترکہ مفادات کی کونسل نے نیشنل فلڈ پروٹیکشن پلان4 کے حتمی مسودے کی منظوری دی تھی، جس کی لاگت آج کی شرح سے 3سو32اعشاریہ2 ارب روپے یا 1اعشاریہ4 ارب ڈالرہے۔

لیکن نیشنل فلڈ پروٹیکشن پلان4 کا ذیلی منصوبہ پی سی 1 مالی مجبوریوں کی وجہ سے منظور نہیں ہو سکا۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
آئی ایم ایف کے پاس جانا ناکامی کی علامت ہے، شاہد خاقان عباسی
ورلڈ اکنامک فورم، وزیر اعظم کی امیر کویت سے ملاقات
بطور وزیر اعظم میں نے 58-2 بی کا خاتمہ کیا، یوسف رضا گیلانی
چینی برآمد کرنے کا جلد از جلد فیصلہ کیا جائے، شوگر ملز ایسوسی ایشن
مولانا فضل الرحمان کا ذمہ داران سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب
کالی چائے کے ٹیکس چھوٹ کا غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر