Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

اسحاق ڈار

Now Reading:

اسحاق ڈار

مفتاح اسماعیل اب اختیارات سے محروم ہوچکے ہیں۔ انھوں نے کسی بھی تخمینے سے زیادہ معیشت کی تباہی کا سامان کیا۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہو گا کہ وہ ان بد ترین لوگوں میں سے ایک تھے جن کے دور حکومت میں معیشت کو زبوں حالی کا سامنا کرنا پڑا۔ مفتاح اسمٰعیل کی نااہلی اور اپنے ہم وطنوں کے لیے ان کے دل میں ہمدردی کے فقدان کے علاوہ کوئی چیز ترقی کی منازل طے کرتی معیشت کو تباہ نہیں کر سکتی تھی۔

بطور وزیرخزانہ ان کا 6 ماہ سے بھی کم عرصے پر محیط دور غلطیوں اور غفلتوں سے عبارت ہے۔ ان کی پالیسیوں نے پاکستان کے نچلے اور متوسط طبقے کی آبادی کے مصائب میں مزید اضافہ کیا ہے۔

ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق، پاکستان کی حقیقی جی ڈی پی نے مالی سال2022ء 5 اعشاریہ 97 فیصد کی شرح سے نمو کی، جب کہ پالیسی میں سختی کے درمیان، مالی سال 2023ء میں معیشت کے 3 اعشاریہ 5 فیصد تک سست روی کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

معاشی ماہرین اور تجزیہ کاروں کو رواں سال معاشی بڑھوتری ڈھائی فیصد کی شرح سے بڑھنے کے خدشات بھی لاحق ہیں۔

مفتاح اسماعیل کی چھ ماہ سے بھی کم مدت، بد انتظامیوں، غلطیوں اور فرد گذرشتوں سے بھری پڑی ہے۔ان کی پالیسیوں نے پاکستان کے متوسط اور نیم متوسط طبقے کے مصائب میں بے تحاشہ اضافہ کیا۔ پاکستان کے خزانے کی کنجیاں تھامنے سے پہلے وہ شیخیاں بگھارا کرتے تھے کہ ان کی حکومت 12 روپے فی یونٹ کے نرخ پر بجلی فروخت کرے گی۔ جب وہ سبکدوش ہو رہے ہیں تو ، ان کے وعدوں کے برعکس، پاکستانی عوام اگست کے بلوں میں ٹیکس اور فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز سمیت تقریباً 50 روپے فی یونٹ ادا کر رہے ہیں۔پچھلے سال کے دوران بجلی کی قیمتیں تقریباً 16 روپے فی یونٹ تھیں، جنہیں نام نہاد مالیاتی گرو نے بڑھا کر 38 روپے فی یونٹ کر دیا ہے۔

Advertisement

مفتاح اسماعیل نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت معیشت میں استحکام لانے کے لیے سخت اور غیر مقبول اقدامات پر عمل پیرا ہے جن سے مہنگائی بڑھے گی۔ لیکن معاشی اشاریے اور متوسط طبقے کی آبادی کی حالتِ زار، جو تیزی سے خط غربت سے نیچے آتی جارہی ہے، الگ ہی کہانی سناتی ہے۔ ملک کے عوام اشیائے خورونوش کی بلندی کی جانب گامزن قیمتوں کے بڑھتے ہوئے دباؤکے باعث اذیت میں مبتلا ہیں۔

 وفاقی ادارہ شماریات ) پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس ( کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق اگست 2022ء میں صارف قیمت اشاریے (سی پی آئی) پر مبنی پاکستان کا اجناس، اشیاء و خدمات سے متعلق مجموعی افراط زر 47 سال کی بلند ترین سطح، 27اعشاریہ3 فیصد تک پہنچ گیا۔ افراط زر کی یہ سطح آخری مرتبہ مئی 1975ء میں دیکھی گئی۔ یہ اصلاحی اقدامات کے نام پر مفتاح اسماعیل کی جانب سے اپنائی گئی پالیسی کی مہربانی ہے۔ اس اقتصادی جادوگر کے چھڑی گھمانے سے صرف چار مہینے پہلے، اپریل 2022ء میں صارف قیمت اشاریہ افراط زر 13اعشاریہ4 فیصد پر تھا۔

 مفتاح اسماعیل کا پروفائل- جو انہیں ایک تجربہ کار کاروباری شخصیت اور ماہرتعلیم – جو بظاہر معاشیات کی میکانیات اور تیکنیکی پہلوئوں پر دسترس رکھتا ہے، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے حکام کو قائل کرنے میں ناکام رہا۔ انہیں مشکل ترین شرائط پر معاہدہ کرنے میں بھی چار ماہ کا عرصہ لگ گیا۔ آئی ایم ایف کے زیر اثر ، جیسا کہ انہوں نے دعویٰ کیا، حکومت نے اپنی مدت میں 87روپے57 پیسے اضافہ کرکے پٹرول کی فی لیٹر قیمت 237روپے 43 پیسے تک پہنچادی جو 10 اپریل کو 149روپے 86 پیسے فی لیٹر تھی۔ اسی طرح ڈیزل کے نرخ 103 روپے 28 پیسے اضافے سے 247روپے 43 پیسے ہوگئے جو 10 اپریل کو 144 روپے 15 پیسے تھے۔ سب سے بڑھ کر انہوں نے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر ‘گھٹیا‘ مذاق کرکے اپنے ہمدرد نہ ہونے کا ثبوت دیا۔ دراصل یہ ان کے لیے خود اپنی ہنسی اڑانے کے مترادف تھا۔ یہ بھیانک سیاست ہے! ان کا مذاق دیکھ کر حاضرین کے چہروں پر غصہ امڈ آیا تھا۔

اسلام آباد میں ایک کاروباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے کہا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافے سے بحری جہازوں کے مالکان کو تو فرق پڑ سکتا ہے لیکن عام طبقہ زیادہ متاثر نہیں ہوگا۔

حکومت نے تیل کے عالمی نرخوں میں نمایاں کمی کے باوجود قیمتوں کو بلند ہی رکھا ہے، 8 اپریل کو برینٹ کے سودے 102 اعشاریہ 78 ڈالر فی بیرل، جب کہ یو ایس ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ (WTI) کروڈ کے سودے 98 اعشاریہ 26 ڈالر فی بیرل میں طے ہوئے تھے۔

 27 ستمبر بروز منگل برینٹ آئل کے نرخ 85 اعشاریہ 17 ڈالر فی بیرل ریکارڈ کیے گئے جب کہ یو ایس ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ (WTI) خام تیل 77اعشاریہ 79 ڈالر فی بیرل پر فروخت ہورہاتھا۔ ان کی نگرانی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان تین ماہ سے زائد عرصے تک گورنر کے بغیر ریا۔ روپے نے اپنی 30 فیصد قدر کھوکر مفتاح اسماعیل کے کارناموںمیں ایک اورکارنامےکا اضافہ کیا۔

Advertisement

11 اپریل 2022ء کو انٹربینک فارن ایکسچینج مارکیٹ کے اختتام پر ڈالر کے نرخ 182 اعشاریہ 93 روپے تھے۔ا س وقت کے بعد سے روپے کی قدر میں 50روپے 98 پیسے یا 27 اعشاریہ8 فیصد کمی آچکی ہے۔ 27 ستمبر کو جب مفتاح اسماعیل نے باضابطہ طور پر وزیرخزانہ کے منصب سے مستعفی ہونے کااعلان کیا تو ڈالر کی قدر233 روپے 91 پیسے پر آچکی تھی۔ مرکزی بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی گراوٹ دیکھنے میں آئی اور یہ 16 ستمبر کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران ڈھائی ارب ڈالر کی کمی سے 8ارب 34 کروڑ ڈالر ہوگئے۔ جب کہ 8 اپریل 2022ء کو زرمبادلہ کے ذخائر 10 ارب 84کروڑ ڈالر کی سطح پر تھے۔ مرکزی بینک کے علاوہ کمرشل بینکوں کے پاس موجود خالص غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر سمیت ملک کے پاس موجود مجموعی غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 14 ارب 6 کروڑ ڈالر ریکارڈ کیے گئے۔ جو 8 اپریل کو 17 ارب 2 کروڑ ڈالر تھے۔ 27 ستمبر کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران کمرشل بینکوں کے پاس موجود زرمبادلہ کے خالص ذخائر 8 اپریل کے 6 ارب 17کروڑ کے ذخائر کے مقابلے میں 5 ارب 72کروڑ ڈالر تھے۔ مالی سال 2021/22ء میں برآمدات کا حجم 31 ارب 7 کروڑ ڈالر رہا، جب کہ مالی سال 2020/21 میں 25 ارب 30 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی برآمدات کی گئی تھیں۔

بیرون ملک مقیم پاکستانی کارکنوں کی ترسیلات زر مالی سال 2021/22 میں 6اعشاریہ1 فیصد بڑھ کر 31 ارب 20 کروڑ ڈالر ہوگئیں جو پچھلے سال کی اسی مدت میں 29 ارب 45 کروڑ ڈالر تھیں۔ تمام اعدادوشمار ملک کے مالیاتی منتظم کی نااہلی، بدانتظامی اور ناقص کارکردگی کی تصویر کشی کر رہے ہیں۔ ان کی نااہلی اور بدانتظامی نے پانچ ماہ کے دوران ملک کو، تیرھویں صدی میں بغدا دکو تاراج کرنے والے ہلاکوخان سے کہیں زیادہ ظالمانہ انداز سے تباہ کیا ہے۔

مفتاح اسماعیل کی کارکردگی کا اندازہ اس حقیقت سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کاروباری برادری اور صنعتوں کی جانب سے ان کی رخصتی کا بڑے پیمانے پر خیرمقدم کیا جا رہا ہے۔پاکستان اسٹاک ایکسچینج (PSX) میں ہفتے کے مسلسل دو سیشنز میں 898اعشاریہ02 پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔ بینچ مارک KSE-100 انڈیکس 27 ستمبر کو 41518اعشاریہ23 کی سطح پر بند ہوا، جو جمعہ 23 ستمبر کو 40620اعشاریہ21 پوائنٹس پر بند ہوا تھا۔ 27 ستمبر کو تین مسلسل سیشنز میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 5 روپے 80 پیسے یا2 اعشاریہ 4فیصد کا اضافہ ہوا اور یہ 233 روپے 91 پیسے فی ڈالر پر پہنچ گیا۔ 22 ستمبر کو ڈالر کی قدر 239روپے 71 پیسے تھی۔

 مفتاح اسماعیل نے ملکی معیشت کے بنیادی اصولوں پر عوام اور تاجر برادری کا اعتماد پارہ پارہ کردیا۔ اگر اسحاق ڈار پر مثبت نتائج دینے کے لیے یقین کرلیا جائے تو کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہوگی؟

اسحاق ڈار کے ڈیلیور کرنے پر یقین کیا جائے تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ اسحاق ڈار، جو خود معیشت کو سنبھالنے پر تنقید کا نشانہ بنتے ہیں، انہیں وزارت خزانہ سے نوازا گیا ہے۔ ڈار نے روپے کی قدر کو مستحکم کرنے کے لیے اربوں ڈالر کا انخلا کیا لیکن سب بے سود رہا،  اور یہ ڈار ہی ہیں جنہوں نے 2018ء میں جاری کھاتے کا خسارہ 19 ارب ڈالر تک پہنچا دیا تھا۔ میڈیا کے ساتھ اپنی پہلی گفتگو میں بھی اسحاق ڈار نے ’نئی پیکنگ میں پرانا مال بیچنے‘ کی کوشش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ مہنگائی کو لگام دینے اور کرنسی کو مستحکم کرنے کے لیے کام کریں گے۔اب سب بے بس پاکستانی ایک ایسے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کے رحم و کرم پر ہیں جو ملکی خزانوں کی چابیاں چوتھی بار اپنے ہاتھ میں لے رہا ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
آئی ایم ایف کے پاس جانا ناکامی کی علامت ہے، شاہد خاقان عباسی
ورلڈ اکنامک فورم، وزیر اعظم کی امیر کویت سے ملاقات
بطور وزیر اعظم میں نے 58-2 بی کا خاتمہ کیا، یوسف رضا گیلانی
چینی برآمد کرنے کا جلد از جلد فیصلہ کیا جائے، شوگر ملز ایسوسی ایشن
مولانا فضل الرحمان کا ذمہ داران سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب
کالی چائے کے ٹیکس چھوٹ کا غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر