Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

طبل جنگ بج گیا

Now Reading:

طبل جنگ بج گیا

سابق وزیراعظم عمران خان آئندہ چند روز میں، قبل از وقت عام انتخابات کے لیے دباؤ بڑھانے کی غرض سے احتجاجی کال دینے کو تیار ہیں۔ حالیہ واقعات کے پیش نظر، ان کے مطالبے میں ایک نئی عجلت در آئی ہے جیسے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل ن) کے رہنماؤں کے خلاف میگا کرپشن کیسز میں مختلف سازگار عدالتی فیصلوں، اسحاق ڈار کی واپسی اور وزیر خزانہ کے منصب پر بحالی، سے بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ شہباز شریف حکومت کو بتدریج برتری حاصل ہورہی ہے۔

اب عمران خان کے پاس اسلام آباد کا محاصرہ کرنے کے لیے حامیوں کو اکٹھا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا، کیونکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور حکومتی عہدیداروں کے پس منظر میں کیے گئے انٹرویوز سے پتہ چلتا ہے کہ سیاسی تعطل کو ختم کرنے کے لیے مذاکراتی تصفیے کی کوششیں کمزور پڑچکی ہیں۔

پی ٹی آئی کے ذرائع تسلیم کرتے ہیں کہ عمران خان کے پاس احتجاجی مہم شروع کرنے کے لیے گنجائش محدود ہے، کیونکہ پنجاب کو ان کے ہاتھوں سے چھیننے کی کوششیں جاری ہیں۔ ان ذرائع نے انکشاف کیا کہ پارٹی کی صفوں میں یہ شعور موجود ہے کہ اگر پنجاب حکومت پی ٹی آئی کے ہاتھ سے نکل گئی تو کوئی بھی تحریک چلانا مشکل ہو جائے گا۔

اس لیے اکتوبر سیاسی تقسیم کے دونوں اطراف کے کھلاڑیوں کے لیے ایک اہم مہینہ ثابت ہو گا کیونکہ دونوں جانب کے بڑے اسٹیک ہولڈرز کے پاس اس سیاسی بحران کو مذاکرات کے ذریعے ختم کرنے کے لیے کوئی روڈ میپ دکھائی نہیں دیتا۔ جہاں عمران خان کے حامی اور مخالف کیمپ حتمی مرحلے کی تیاری کر رہے ہیں، وہیں ملک کے لیے اشارے ناخوشگوار ہیں، جو پہلے ہی مسلسل سیاسی عدم استحکام اور گہرے ہوتے معاشی بحران سے دوچار ہے، جو مل کر پورے نظام کو پٹڑی سے اتارنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

صورتحال کی سنگین ستم ظریفی یہ ہے کہ فریقین میں سے کسی کی سوچ اور نقطہ نظر اس کھیل کو ختم کرنے کے بارے میں واضح نہیں ہے، بالخصوص اس صورت میں کہ عمران خان اور ان کے حامی سڑکوں پر نکل آئیں۔

Advertisement

پی ٹی آئی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان ایوان صدر میں ملاقات ہوئی تاہم انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے ابھی تک ان خبروں کی نہ تو تصدیق کی ہے اور نہ تردید۔

عمران خان کے ایک قریبی ساتھی نے بول نیوز کو بتایا کہ ” ایوان صدر میں ہونے والی ملاقات، جس کا بہت چرچا تھا، وہ منفی موڑ پر ختم ہوئی۔” یہ ملاقات تقریباً 45 منٹ تک جاری رہی جس میں عمران خان نے قبل از وقت عام انتخابات کرانے اور بدعنوان سیاستدانوں کو کوئی بھی سیاسی گنجائش نہ دینے کا مطالبہ کیا لیکن انہیں دونوں مطالبات پر انتظار کرنے کے لیے کہا گیا۔

یہ ملاقات جہاں عمران خان کے لیے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی وہیں حکومت، بالخصوص نواز شریف کیمپ کے لیے گزشتہ ایک ہفتے سے اچھی خبروں کی بھرمار ہے۔ اسحاق ڈار — جنہیں دو میگا کرپشن کیسز میں مفرور قرار دیا گیا تھا — لندن میں پانچ سالہ خود ساختہ جلاوطنی کے بعد بہت دھوم دھام سے اور سرکاری پروٹوکول کے ساتھ پاکستان پہنچے۔ ڈار کو نہ صرف عدالت سے ریلیف ملا بلکہ انہوں نے سینیٹر اور وزیر خزانہ کی حیثیت سے حلف بھی اٹھایا۔ ان کی بحالی اور اسی طرح مرکزی دھارے کی سیاست میں ان کا دوبارہ داخلہ بھی کامیابی سے ممکن بنایا جاچکا ہے۔

اسی طرح اسلام آباد ہائی کورٹ نے مریم نواز اور ان کے شوہر صفدر کو ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں بری کردیا جسے شریف خاندان کے لیے سیاسی طور پر بہت بڑے فائدے کا موجب قرار دیا جارہا ہے۔ اب نواز شریف کی وطن واپسی اور ان کے لیے عدالتوں اور نظام سے سہولت کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے بنیادیں تیار کی جا رہی ہیں۔

عدالتوں سے ریلیف کے علاوہ، شہباز شریف کی حکومت بین الاقوامی مالیاتی اداروں بشمول بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے اپنے پروگرام کے تحت عائد سخت شرائط میں نرمی کی یقین دہانی حاصل کرنے اور ساتھ ہی ساتھ تباہ کن سیلاب کے اثرات کو کم کرنے میں مدد کے لیے فنڈز اور قرضے کے وعدے لینے میں بھی کامیاب رہی ہے۔ اس سال اپریل میں عمران خان کو ہٹائے جانے کے بعد سے واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان برف بھی پگھل رہی ہے۔

عمران خان کے لیے، اس طویل سیاسی کشمکش میں جو 2022ء کے اوائل سے ہی پورے ملک کو شش و پنج میں مبتلا کیے ہوئے ہے، شکست کا خطرہ کبھی اتنا زیادہ نہیں رہا۔عمران خان، ہر لحاظ سے کمزور ہاتھ سے کھیل رہے ہیں کیونکہ سیاسی اسٹیبلشمنٹ، ذرائع ابلاغ اور طاقتور فوجی اور سول حلقے ان کے خلاف ایک متحدہ محاذ تشکیل دیے نظر آتے ہیں۔

Advertisement

ان کے معاون نے کہا کہ عمران خان کے پاس اپنی مقبولیت کے سوا کوئی امید نہیں ہے، انہیں مفاہمت یا نرم انقلاب کے درمیان سخت انتخاب کرنا ہوگا۔ اگر وہ قبل از وقت انتخابات پر مجبور کرنا چاہتے ہیں تو ان کے پاس احتجاج اور تحریک کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اس بات پر قائل نظر آتے ہیں کہ ان کی قیادت کو بلاتاخیر احتجاج کی حتمی کال دینا ہوگی۔ اس بار پی ٹی آئی اسلام آباد میں داخل ہوئے بغیر گھیراؤ کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے ذرائع نے بتایا کہ پنجاب سے آنے والے پی ٹی آئی کے حامی فیض آباد میں ڈیرے ڈالیں گے، اور خیبرپختونخوا سے آنے والے ترنول یا اسلام آباد کے قریب کہیں ٹھکانے لگائیں گے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ اسلام آباد آنے اور جانے والے تمام داخلی اور خارجی راستوں کو بند کرنے کی تجویز ہے اور شہر کے باہر موجود پارٹی کے کارکنان اور حامیوں کے حوالے سے تجویز یہ ہے کہ وہ صرف اس وقت شہر میں داخل ہوں گے جب حکومت گرنے لگے یا پی ٹی آئی کے مطالبات کی منظوری کے لیے ضمانت مل جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 2014ء کے دھرنے سے انحراف کرتے ہوئے ، پی ٹی آئی تمام بڑے شہروں میں احتجاج اور وہاں کی مرکزی شاہراہوں کو بند کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔

تاہم، نرم انقلاب لانے کی پی ٹی آئی کی بیان بازی پارٹی اور ملک دونوں کے لیے خطرات کا باعث ہے۔ پی ٹی آئی کے لیے بدترین صورت حال یہ ہوسکتی ہے کہ حکومتی کریک ڈاؤن یا اس کے حامیوں کی جانب سے غیر تسلی بخش ردعمل کی وجہ سے اس کی انتخابی مہم غیرموثر اور بالآخر ناکام ہوجائے۔ ریاست کے لیے خطرے کا عنصر مظاہروں کے قابو سے باہر ہوجانے اور اس کے نتیجے میں افراتفری کا پیدا ہوجانا ہوگا۔ جس کا موجودہ بلند مہنگائی، لوگوں کی گرتی آمدن اور بڑھتی ہوئی سیاسی غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر واضح امکان ہے۔

جاری سیاسی کشمکش نے نہ صرف معاشرے بلکہ ملک کے اداروں کو بھی منقسم کردیا ہے، کیونکہ عمران خان اور ان کے مخالفین دونوں پاکستانی فوج کو اپنی اپنی حمایت میں عمل کرنے پر قائل کرنے کی شدت سے کوشش کر رہے ہیں۔ اب تک شہباز شریف حکومت اس محاذ پر عمران خان کے خلاف پوائنٹ اسکور کرتی نظر آتی ہے۔ لیکن دونوں فریق امید لگائے بیٹھے ہیں اور نومبر میں جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد ابھرنے والے ممکنہ منظر نامے پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ تاہم، یہ قیاس آرائیاں بھی کی جارہی ہیں کہ آرمی چیف کسی نہ کسی بہانے اپنی اننگز کو چند ماہ تک طول دے سکتے ہیں۔ عمران خان پہلے ہی تجویز دے چکے ہیں کہ جنرل باجوہ اگلے انتخابات کے انعقاد تک عہدے پر فائز رہیں۔

Advertisement

دونوں فریقین اب ہار ماننے سے انکاری اور حتمی مقابلےکے لیے تیار ہیں۔ دریں اثنا، شدید معاشی بحران اور دیگر داخلی اور خارجی چیلنج فوری سیاسی استحکام کے متقاضی ہیں، جو افسوسناک طور پر دور دور تک نظر نہیں آرہا اور نہ ہی ملک کے طاقت ور اسٹیک ہولڈرز کے ایجنڈے پر کہیں دکھائی دیتا ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
آئی ایم ایف کے پاس جانا ناکامی کی علامت ہے، شاہد خاقان عباسی
ورلڈ اکنامک فورم، وزیر اعظم کی امیر کویت سے ملاقات
بطور وزیر اعظم میں نے 58-2 بی کا خاتمہ کیا، یوسف رضا گیلانی
چینی برآمد کرنے کا جلد از جلد فیصلہ کیا جائے، شوگر ملز ایسوسی ایشن
مولانا فضل الرحمان کا ذمہ داران سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب
کالی چائے کے ٹیکس چھوٹ کا غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر