Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

لبنان کی “ونڈر ویمن”

Now Reading:

لبنان کی “ونڈر ویمن”

سیلی حافظ کچھ دنوں سے اپنی دوست کو نہیں دکھائی دیں جب وہ 14 ستمبر کو بیروت میں ایک نقلی بندوق کے ساتھ اپنی رقم کا مطالبہ کرنے ایک بینک میں داخل ہوئیں، اور پوری دنیا میں اپنی دلیرانہ تصویر نشر ہوتے ہی لبنان بھر میں مشہور ہوگئیں۔

دوست، جو حفاظتی وجوہات کی بنا پر اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا، سیلی کے لیے ایک کیک لے کر آیا ہے، جو گرفتار نہ ہونے کے باعث اب روپوش ہیں۔

کیک پہ سفید کریم سے لکھا ہے، “سیلی بہادر ہیں۔”

سیلی کی بہن اکرام، جنہوں نے بینک کے عملے کو سنبھالا تھا اور وہ بھی رُوپوش ہیں، کیک کو کاٹ کر کمرے میں موجود لوگوں میں بانٹتی ہیں۔”میرا وزن پہلے ہی پانچ کلو کم ہو چکا ہے”، سیلی نے الجزیرہ کو بتایا جو ایک ہاتھ میں کیک والی پلیٹ تھامے ہوئے تھیں اور دوسرے ہاتھ سے اپنی جینز کو جس سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ کتنی ڈھیلی ہو چکی ہے۔ “یہ تناؤ ہے۔”

28 سالہ سیلی اور اُن کی بہن نے 14 ستمبر کو لبنان کے بلوم بینک کی ایک برانچ پر دھاوا بول دیا اور بندوق کے زور پر، بعد میں اُنہوں نے بتایا کہ وہ نقلی تھی، اپنے اکاؤنٹس سے 20 ہزار ڈالر کی نقد رقم کا مطالبہ کیا۔

Advertisement

سیلی کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے اپنی بہن کے طبی اخراجات کی ادائیگی کے لیے ایسا کیا اور وہ جلد ہی اُس مُصیبت و مایوسی کی علامت بن گئی تھیں جس کے شکار کئی لبنانی باشندے ملکی مالی بحران تلے زندگی بسر کر رہے ہیں۔

2019ء کے بعد سے زیادہ تر نکالی جانے والی رقوم کو مقامی کرنسی میں لینے پر مجبور کرتے ہوئے بینکوں نے غیرملکی کرنسی نکلوانے پر سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں اور وہ بھی مارکیٹ سے کہیں کم شرحِ قدر پر۔ اِس کا آسان مطلب یہ ہے کہ اگر عوام اپنے غیرملکی کرنسی اکاؤنٹس تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ ہر بار نکلوانے پر کافی رقم کھو دیں گے۔

اگرچہ سیلی اِس سال بینک سے زبردستی اپنی رقم وصول کرنے والی پہلی فرد نہیں تھیں، تاہم اُن کی کامیابی دیگر افراد کے لیے ترغیب بن گئی اور کم از کم پانچ دیگر افراد نے 16 ستمبر کو اسی طرح کی کارروائیاں کرکے بینکوں سے اپنی رقوم نکلوائیں۔

ردعمل میں حکام نے عوام کو ڈکیتی کی وارداتوں کی نقالی نہ کرنے کی تاکید کرتے ہوئے تین دن تک بینک بند رکھنے کا اعلان کیا۔ “ہم مجرم نہیں”بہت سے مُتوسّط لبنانی خاندانوں کی طرح، سیلی حافظ کا خاندان بھی ملک کے معاشی بحران سے قبل آرام دہ زندگی گزار رہا تھا۔

جب مالی گراوٹ شروع ہوئی تو وہ تب بھی اپنی بچت اور ملازمت سے گزارہ کر سکتے تھے۔

لیکن حالات اُس وقت تبدیل ہوئے جب سیلی کی چھوٹی بہن، 22 سالہ نینسی کو سات ماہ قبل دماغ کے کینسر کی تشخیص ہوئی اور نینسی کی سرجری کے لیے 20 ہزار ڈالر کی رقم نکلوانے کی اُن کی درخواست کو بینک کی جانب سے مسترد کیے جانے کے بعد اُن کے خاندان نے اپنا قیمتی سامان بیچنا شروع کر دیا۔

Advertisement

سیلی کا کہنا ہے، “ہم مجرم نہیں ہیں، ہمارے پاس پیسہ ہے جو بینک چوری کر رہے ہیں۔”

استنبول میں نینسی کے علاج کے لیے مزید رقم درکار تھی اور بینک نے ایک بار پھر رقم لوٹانے کی درخواست مسترد کر دی تھی جس پر نینسی نے سیلی سے کہا کہ اگر وہ مر گئیں تو سیلی اُن کے بچوں کی دیکھ بھال کریں۔

سیلی نے الجزیرہ کو بتایا، “میں نے اُس سے کہا کہ میں تمہارے لیے مرنے کو تیار ہوں اور تم سے وعدہ کرتی ہوں کہ تمہیں پیسے دلوا کر رہوں گی۔” اگلے دن سیلی بندوق لے کر بینک میں داخل ہوئیں۔

سیلی اور اکرام کے چہرے واردات کی تفصیلات بتاتے ہوئے جوش سے تمتما رہے تھے۔ وہ دونوں 13 ہزار ڈالر سے زیادہ رقم اور بینک کی ایک رسید لے کر فرار ہو گئیں۔

پولیس نے جلد ہی اُن کے گھر کو گھیرے میں لے لیا لیکن جب سیلی نے فیس بک پر پوسٹ کیا کہ وہ استنبول جانے کے لیے ایئرپورٹ پر ہیں تو پولیس وہاں سے چلی گئی۔

 

Advertisement

اُنہوں نے بتایا کہ اِس کے بعد وہ حاملہ عورت کے بھیس میں بیروت سے نکل گئیں۔

لاکھوں کی واردات

ابراہیم عبداللہ 14 ستمبر کو بینک کے باہر سیلی کے لیے خوشی کا اظہار کرنے والے ہجوم میں شامل تھے۔

عبداللہ نے الجزیرہ کو بتایا کہ “ہم لُوٹ نہیں رہے، ہم اِسے اپنی جمع پونجی چھُڑانا کہتے ہیں کیونکہ بینک ہمیں لُوٹ رہے ہیں، وہ تمام لبنانیوں کو لُوٹ رہے ہیں۔”

عبداللہ ڈیپازٹرز آؤٹ کرائی ایسوسی ایشن کے ایک رکن ہیں جو اپنی رقم کے حصول کے حق کے لیے احتجاج کرنے والے افراد کا ایک گروپ ہے، اور جس نے کچھ بینکوں میں واردات کرنے میں مدد دی ہے۔

عبداللہ کا کہنا ہے کہ اُن کے اکاؤنٹ میں موجود لاکھوں ڈالر پھنسے ہوئے ہیں جو دبئی کی ایک اعلیٰ کمپنی میں بطور سینیئر سیلز مینیجر ملازمت کے دوران اُن کی 17 سال کی بچت ہیں۔ اُنہوں نے الجزیرہ کو اپنی گزشتہ زندگی کی تصاویر دکھائیں جن میں وہ عالیشان مکانات اور محلات میں اعلیٰ سعودی عہدیداروں کے ساتھ اور ایوانکا ٹرمپ جیسی مشہور شخصیات کے ساتھ سیلفیز لیتے دکھائی دیتے ہیں۔

Advertisement

اب وہ 400 ڈالر ماہانہ پر گزارہ کر رہے ہیں جو بینک اُنہیں نکالنے کی اجازت دیتا ہے۔ اِس رقم سے وہ اپنے دو بچوں اور بوڑھے والدین کی کفالت کرتے ہیں۔ “میرے والدین کو مسلسل دواؤں کی ضرورت ہے اور جو کچھ بینک مجھے دے رہا ہے وہ میرے والدین کی ادویات خریدنے کے لیے، میری گاڑی میں پٹرول ڈالنے کے لیے اور بجلی کا بل ادا کرنے کے لیے کافی نہیں ہے”، اُنہوں نے بتایا۔

لبنانی مالیاتی اداروں نے کہا ہے کہ پابندیاں ضروری ہیں کیونکہ ان کے پاس کھاتے داروں (اکاؤنٹ ہولڈرز) کو دینے کے لیے اتنی غیرملکی کرنسی نہیں ہے۔ عبداللہ نے اعتراف کیا کہ اُنہوں نے بھی ایک بینک میں واردات کرنے پر غور کیا ہے، تاہم اُنہوں نے ایسا نہ کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ یہ بہت خطرناک تھا۔

اُن کا بینک اُن کا کھاتہ بند کر سکتا ہے جیسا کہ انہوں نے اُنہیں لاکھوں ڈالر مالیت کا چیک دیتے ہوئے دھمکی دی تھی۔ تاہم غیرملکی کرنسی کی کمی کے سبب جس کی بنا پر اکاؤنٹس کو منجمد کیا گیا ہے، کوئی دوسرا بینک نقد رقم کی ادائیگی کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ “میں لبنان کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنے پر تیار ہوں اگر کوئی ملک مجھے اپنے ہاں پناہ دے دے۔ میں کسی دوسرے ملک میں پناہ گزین بننے کو ترجیح دیتا ہوں۔ یہ میرے لیے اپنے ہی ملک میں پناہ گزین بننے سے بہتر ہے”، عبداللہ نے الجزیرہ کو بتایا۔ سیلی اور اُن کی بہن نے بیروت سے باہر پناہ لی ہے اور وہ واپس آنے سے قبل سیلی کے مقدمے پر حکام کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ دونوں دن بھر آرام کرتی ہیں اور قریبی باغ سے سیب چنتی ہیں۔

سیلی نینسی کے بارے میں فکر مند ہیں جو اپنا علاج شروع نہیں کر سکی ہیں کیونکہ وہ اپنے پاسپورٹ کی تجدید کا انتظار کر رہی ہیں۔ تاہم اُنہیں کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ “اگر میں ابھی واپس گئی تو میں ایسا دوبارہ کروں گی۔ میرے پاس چار راستے تھے، خودکشی کرلوں، پیسہ کمانے کے لیے غیراخلاقی کام کروں، اپنی بہن کو مرتے دیکھوں یا بینک میں واردات کروں اور میں نے آخری حل استعمال کرنے کا فیصلہ کیا”، اُنہوں نے کہا۔

سیلی نے مختلف کارٹون دیکھے ہیں جن میں اُنہیں ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ایک کارٹون جسے سوشل میڈیا پر کئی بار شیئر کیا گیا، اس میں اُنہیں لبنانی ونڈر ویمن کے لباس میں دکھایا گیا ہے جس نے ایک ہاتھ میں بینک کے نوٹوں والی پوٹلی تھامی ہوئی ہے جبکہ دوسرے ہاتھ سے ہسپتال کے گاؤن میں ملبوس اپنی بہن کو پکڑا ہوا ہے جن کا سر منڈا ہوا ہے۔

سالی کا کہنا ہے، “میری خواہش ہے کہ ہر کوئی ہیرو بن جائے، میری خواہش ہے کہ ہر کوئی ایسا ہی کرے۔ بہت سے لوگ خودکشی کر رہے ہیں کیونکہ وہ اپنے رشتے داروں کی مدد نہیں کر پا رہے، میں نے بالکل ٹھیک کیا، مجھے میرا حق مل گیا اور شاید اسی لیے وہ مجھے ہیرو سمجھتے ہیں۔”

Advertisement

بشکریہ: الجزیرہ

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
حکومت نےآئی ایم ایف کی ایک اورشرط پوری کر دی
جس نےبندوق اٹھائی اس سےسختی سےنمٹیں گے، میرسرفراز بگٹی
ترک بری افواج کے کمانڈر کو نشان امتیاز ملٹری دے دیا گیا
کینیا میں ڈیم پھٹنے سے ہلاکتوں کی تعداد 120 سے تجاوز کر گئی
مولانا فضل الرحمان کا 2 مئی کو کراچی میں ملین مارچ کا اعلان
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا دو ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی کا اعلان
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر