Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

ڈی ایچ اے کے رہائشیوں کے لیے ایک نیا دردِ سر

Now Reading:

ڈی ایچ اے کے رہائشیوں کے لیے ایک نیا دردِ سر

شہر قائد کے پوش علاقے ڈی ایچ اے کے رہائشیوں کی اکثریت اُس وقت صدمے سے دوچار ہوئی جب انہیں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کی جانب سے چھتوں پر نصب سولر پینلز کو قوائد کے مطابق بنانے یا ہٹانے کے نوٹس موصول ہوئے۔ یہ خبر تیزی سے پھیلی اور رہائشیوں کا غم و غصہ عروج پر چلا گیا۔ سوال یہ ہے کہ آخر ڈی ایچ اے نے  سولر پینل جیسی متبادل توانائی استعمال کرنے والے رہائشیوں کو نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟  کیوںکہ متبادل توانائی استعمال کرنے پر تو لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے لیکن یہ تو اس کے متضاد عمل تھا۔

رہائشیوں نے فوری طور پر سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔ “مجھے اضافی رقم ادا کرنی ہوگی، آخر کار مجھے اچانک یہ نوٹس کیوں ملا؟” ایک رہائشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر شکایت کی، جب کہ ایک اور رہائشی نے کہا، “ہم ٹیکس دیتے ہیں، وہ ہمیں نوٹس کیوں بھیج رہے ہیں؟” سولر پینل کی تنصیب کا معاملہ زور پکڑ گیا اور میڈیا نے اس کا نوٹس لے لیا۔

رہائشی، بنیادی طور پر ڈی ایچ اے کے اس غیر اعلانیہ فیصلے پر غصے میں تھے، ڈیفنس میں رہنے والی شبانہ نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “براہ کرم اس پر توجہ دیں، میرا مطلب ہے کہ مجھے نوٹس مل گیا، اب مجھے اسٹرکچرل انجینئر کہاں سے ملے گا؟ میں نے اپنے اطراف میں پوچھا، وہ بہت زیادہ پیسے لے رہے ہیں، یہ قطعی غیر ضروری ہے۔”

شاہد نے اپنی پریشانی کا اظہار کچھ یوں کیا، “ہم نے سولر پینل لگانے کا اقدام اس لیے اٹھایا کہ کے الیکٹرک نامعقول ادارہ ہے، اب ہمیں یہ نوٹس کیوں موصول ہوا؟ کچھ عرصہ پہلے تک تو سب ٹھیک تھا، اب کیا بدل گیا؟ ہم ڈی ایچ اے کی’خلاف ورزی‘ کیسے کر رہے ہیں؟”

ڈی ایچ اے کے ترجمان کرنل (ر) کاشف فضل کا اس بابت کہنا تھا کہ یہ بات حیرت انگیز لگتی ہے کہ رہائشیوں کو متبادل توانائی استعمال کرنے کی ترغیب دینے کے باوجود، ڈی ایچ اے، مکینوں کو سزا دے رہا ہے۔ اگر حقائق کا جائزہ لیا جائے تو سب کچھ واضح ہو جائے گا، جن لوگوں کو نوٹس جاری کیے گئے یہ دراصل وہ تھے جنہوں نے ڈی ایچ اے کی پیشگی منظوری کے بغیر سولر پینل لگائے تھے۔ انہوں مزید کہا کہ “آپ جانتے ہیں کہ ہمارے قوانین واضح ہیں اور یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ڈھانچے میں کسی بھی قسم کی تبدیلی اور ترمیم کی اتھارٹی سے منظوری لینا ہوگی۔ تاہم،  ہم نے بارشوں کے دوران جائیداد کی تزئین و آرائش اور بحالی کے قوانین میں نرمی کر دی تھی۔”

Advertisement

ڈی ایچ اے کے رہائشی سمیر اسحاق بتاتے ہیں کہ انہوں نے پانچ سال قبل سولر پینل لگائے تھے۔ جرمانے پر مکینوں کے غم و غصے کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے فوراً ڈی ایچ اے اور اس سے لی جانے والی منظوریوں کی اہمیت بتائی، “ڈی ایچ اے کی تشویش درست ہے، آپ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ایک ساختی مسئلہ ہے کیونکہ کچھ فریم بہت زیادہ اونچے ہوتے ہیں اور پھر اس میں پینل شامل کیے جاتے ہیں، اس سے وزن میں اضافہ ہوتا ہے۔ مجھے ڈی ایچ اے سے آسانی سے اجازت مل گئی، میں اب پانچ سال سے پینل استعمال کر رہا ہوں اور یہ متبادل توانائی کے استعمال کا بہترین طریقہ ہے جو ہمیں تمام تر لوڈ شیڈنگ سے بچا لیتا ہے۔ کےالیکٹرک ہم سے اضافی بجلی خرید لیتا ہے، جس کے لیے ہمیں صرف نیٹ میٹرنگ کے لیے درخواست دینا پڑتی ہے، یہ میٹر سپلائی لائن سے منسلک ہوتا ہے۔”

دوسری جانب اطہر کا کہنا تھا کہ اسٹرکچرل انجینئر سے منظوری لینے کی لاگت دو لاکھ روپے سے تجاوز کر گئی۔ اس حوالے سے کاشف نے وضاحت پیش کی، “میری سمجھ کے مطابق، ایک سرٹیفائیڈ اسٹرکچرل انجینئر سے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی قیمت تقریباً 40 سے 50 ہزار روپے ہے۔ لوگ مبالغہ آرائی کرنا پسند کرتے ہیں اور یاد رکھیں، ڈی ایچ اے کے پاس اپنے پے رول پر کوئی اسٹرکچرل انجینئر نہیں ہے، یعنی ہمارے پاس کوئی پیسے نہیں آرہے ہیں۔”

ایک اور رہائشی مہوش کا کہنا تھا، انہیں بھی نوٹس جاری کیا گیا تھا، “ہم اس گھر میں بیس سال سے رہ رہے ہیں، ہم نے ابھی سولر پینل لگائے ہیں اور یہ سرپرائز مل گیا۔ ڈی ایچ اے نے ایک لیٹر جاری کیا ہے، براہ کرم اسے دیکھیں۔ یہ خطرے کی بات لگتی ہے، ہم اس کی تصدیق کے لیے انجینئر کہاں سے لائیں۔” ڈی ایچ اے کے ترجمان کرنل (ر) کاشف فضل نے بتایا کہ ساختی استحکام کیوں ضروری ہے۔ “اس کی دو وجوہات ہیں، ایک تو یہ کہ گزشتہ سال جون میں دو پینل گرے اور گرے بھی پڑوس میں، خوش قسمتی سے کوئی زخمی نہیں ہوا یا اس سے بھی بدتر کچھ ہو سکتا تھا، لیکن یہ ایک نازک صورتحال تھی۔ سب سے پہلے، استحکام کے حوالے سے، رہائشیوں کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ جو بھی پینل لگا رہا ہے، اس کا طریقہ ٹھیک ہو۔ اسبابت انہیں اسٹرکچرل انجینئر کی طرف سے رہنمائی مل جائے گی کہ اسے کس طرح ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام رہائشیوں کی حفاظت ڈی ایچ اے کی اولین ذمہ داری ہے۔ اگر مثال کے طور پر، خدا نہ کرے، چھت گر جائے، تو مکین ڈی ایچ اے کو مورد الزام ٹھہرائیں گے، کہ ڈی ایچ اے نے عمارت کی جانچ نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے ڈی ایچ اے کے قوانین میں اس شق کو شامل کیا تھا۔

ان رہائشیوں کا کیا ہوگا جنہوں نے حال ہی میں سولر پینلز کا اضافہ کیا؟ کیا انہیں جرمانہ ادا کرنا ہوگا؟ اور اس نوٹس میں اتنی جلد بازی کیوں؟ یہ وہ سوالات تھے جو ڈی ایچ اے کے رہائشیوں کے دماغ میں گردش کر رہے تھے۔ ڈی ایچ اے کے ترجمان کرنل (ر) کاشف فضل نے اس غلط فہمی کو واضح کیا، “ڈی ایچ اے کے پاس قوانین اور ضوابط ہیں جہاں یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اگر آپ کسی بھی طرح سے ڈھانچے کو شامل کرنا یا تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو بیان کردہ طریقہ کار پر عمل کریں۔ ہم آپ کو اجازت دیں گے۔ انہیں صرف اس کی باقاعدہ اطلاع دی گئی تھی۔ ہم نے انہیں ایک خط کے ذریعے آگاہ کیا، خط کے بارے میں میں ذاتی طور پر کہتا ہوں کہ خط کی زبان ٹھیک نہیں تھی اور اب ہم نے اسے بدل دیا ہے۔ رہائشیوں سے کہا گیا کہ وہ پینلز (جو بغیر اجازت کے نصب کیے گئے تھے) کو باقاعدہ بنانے کے لیے کچھ دستاویزات فراہم کریں۔ اس کے لیے ہمیں صرف ڈرائنگ کی ضرورت تھی، جس کی توثیق کسی اسٹرکچرل انجینئر نے کی ہو، اور ایک ہاتھ سے لکھی ہوئی یا ٹائپ کی گئی درخواست ساتھ ہو۔ کسی قسم کا کوئی جرمانہ نہیں ہے، میں آپ کو واضح طور پر بتا رہا ہوں اور جن لوگوں کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں ان پر بھی کوئی جرمانہ نہیں ہوگا، ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ انسٹالیشن کو ریگولرائز کیا جائے۔”

مذکورہ فیصلے کے خلاف سوشل میڈیا کے ذریعے ابتدائی کہانی سامنے آئی۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ ڈی ایچ اے احکامات جاری کر رہا ہے، لوگوں کو جرمانے کر رہا ہے کیونکہ ان کے مطابق یہ ہاؤسنگ سوسائٹی کی جمالیات کے خلاف ہے۔ “اگر ہم رہائشیوں کو یہ تکنیکی تصریحات نہیں دیں گے تو ایک بہت بڑا تضاد سامنے آئے گا، کوئی 15 فٹ کا ڈھانچہ نصب کر سکتا ہے، جب کہ کوئی اور دو فٹ اونچا انسٹال کر سکتا ہے، یقیناً ڈیزائن بھی مختلف ہوں گے۔ ہم آہنگی کی ضرورت ہے، اس کے لیے ہم نے انہیں بتایا ہے کہ پینل کی اونچائی اتنی ہی ہونی چاہیے جتنی سیڑھی کی تاکہ چھت کو بھی استعمال کیا جاسکے۔ پینلز کا وزن بھی بہت زیادہ ہوتا ہے، چونکہ وہ پلیٹیں ہیں اور انہیں فریم کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا مجموعی وزن بڑھ جاتا ہے۔ کچھ لوگ سوشل میڈیا پر آکر غلط معلومات پھیلاتے ہیں، حال ہی میں ایک شخص نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا کہ اس پر 50 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ جب میں نے یہ دیکھا تو میں نے اس سے کہا کہ وہ خط شیئر کرے جہاں اس پر جرمانہ عائد کیا گیا ہے، ہم اس معاملے کو دیکھیں گے اور جرمانہ کرنے والے فرد کو برطرف کر دیں گے۔ لیکن ان سے جواب یہ ملا کہ انہیں تو کسی اور نے اس بارے میں بتایا ہے، یہ ان کے ساتھ ’براہ راست‘ نہیں ہوا ہے۔ اس طرح سے جعلی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں۔”

سولر پینل خود کوئی مسئلہ نہیں ہیں، بنیادی مسئلہ ساخت کا وزن ہے۔ بلند و بالا تنصیبات رہائشیوں کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں، اس لیے اس مسئلے کو حل کرنے اور کسی بھی حادثے سے بچنے کے لیے نوٹس جاری کیے گئے۔ شدید ردعمل، چاہے غصے کی صورت میں ہو یا حمایت کے اظہار میں، توجہ حاصل کرگیا؛ معاملہ حل ہو گیا ہے، اس وقت لگتا ہے طوفان گزر گیا ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
چیئرمین پیپلزپارٹی کا خیبرپختونخوا اورپنجاب کےگورنرز کی نامزدگی کا اعلان
ایف آئی اےسائبر کرائم انویسٹی گیشن ونگ کے اختیارات ختم کر دیے گئے
چارے کی خریداری میں اربوں روپے کی مبینہ کرپشن کا اسکینڈل سامنے آ گیا
صدرمملکت آصف زرداری نے ٹیکس قوانین ترمیمی بل 2024 کی منظوری دے دی
اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی سے رابطہ نہیں کرے گی، قمر زمان کائرہ
سابق وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی لیگی رہنما حنیف عباسی کو فارم 47 کی دھمکی
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر