ہمارے معاشرے میں بچوں کو مارنا عام اور سماجی طور پر قابل قبول فعل سمجھا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بچوں پر تشدد اور جسمانی سزاؤں کے واقعات میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔طاقت کا استعمال، بظاہر ایک بچے کو ’’نظم و ضبط‘‘ سکھانے اور ’’اچھا انسان بنانے‘‘ کے لیے نہ صرف قابل قبول ہے بلکہ نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے۔ اس تسلیم شدہ عقیدے کی وجہ سے معاشرہ لوگوں کے ایسے رویوں سے لاتعلقی اور بے حسی کا مظاہرہ کرتا ہے حتیٰ کہ انہیں اپنے اردگرد موجود ذہنی مریض بھی نظر نہیں آتے۔اس طرح کی سوچ کا نتیجہ 20 ستمبر کو کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن میں پیش آنے والے ایک المناک واقعہ ہے، جس میں ایک بارہ سالہ بچے شہیر خان کو اس کے والد نے زندہ جلا دیا تھا۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ ایک زندہ دل، شوخ، جانوروں سے محبت کرنے والے اوردوستوں کے دوست شہیر کو اس کے والد نذیر خان نے دھمکی دی، مارا پیٹا یا تشدد کا نشانہ بنایا۔ مقتول کی والدہ شازیہ نے بول نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ نذیر بچوں کے ساتھ اکثر غصے کے ساتھ پیش آتا تھا۔ وہ اکثر بچوں کو آگ سے ڈراتا تھا اور زیادہ تر شہیر ہی اپنی چنچل اور زندہ دل طبیعت کی وجہ سے نشانہ بنتا تھا۔
شازیہ نے بتایا کہ نذیر نشے کا عادی ہے۔وہ سجھتا ہے کہ وہ ہی ہمیشہ صحیح ہوتا ہے۔اس کو لوگوں کو مارنے کی عادت ہے، پہلے اس کے بہن بھائی کیونکہ وہ ان میں سب سے بڑا تھا، پھر اس کے طالب علم جب وہ تدریسی پیشے سے وابستہ تھا اور اب اس کا شکار اس کے اپنے بچے ہیں۔
والدہ نے بتایا کہ اس کے بڑے بیٹے کو ایک بار اس کے باپ نے بری طرح زدوکوب کیا تھا۔ اس بھیانک واقعے کی وجہ سے بچہ روزمرہ کے معاملات میں خاموش اور بے سکونی میں مبتلا ہوگیا تھا، لیکن شہیر کوہنسی مذاق بہت پسند تھا جس کی وجہ سے اس کا باپ کبھی کبھار ناراض ہو جاتا تھا۔ میرے تمام بچے پڑھائی میں اچھی کارکردگی کر رہے ہیں لیکن ان کے والد نے کبھی ان کی تعریف نہیں کی۔ شہیر نے اگست میں پانچویں جماعت میں دوسری پوزیشن حاصل کی تو اسے اگلی جماعت میں ترقی دے دی گئی۔خوش مزاج شہیر پتنگ کی طرح اونچا اڑنا چاہتا تھا۔اس کا مقصد اس سال پہلی پوزیشن حاصل کرنا تھا۔میرا بیٹا کتنا زندہ دل اور کامیاب تھا۔والدہ نے سوال کیا کہ کیا اس کے زندہ جل جانے کی وجہ زندہ دل اور خوش مزاج ہونا تھا؟
بیٹے کی موت کے بعد شازیہ دو روز تک صدمے میں رہیں اور پھر اپنے شوہر کے خلاف مقدمہ درج کرانے کا فیصلہ کیا۔ ان کے بڑے بیٹے 15 سالہ شاہ زین کو اپنے چھوٹے بھائی کو آگ میں لپیٹا ہوا دیکھنے کی وجہ سے اب اپنے باپ کے لیے کوئی ہمدردی نہیں رہی۔شاہ زین نے اپنی والدہ سے کہا تھا کہ وہ اپنے والد کے خلاف ایف آئی آر درج کرائیں کیونکہ وہ ایسا کرنے کے لیے ابھی کافی کم عمر تھا۔ سوگوار ماں نے بتایا کہ میرے بیٹے نے یہ جانتے ہوئے کہ وہ نابالغ ہے، اپنے والد کے خلاف مقدمہ درج نہیں کر سکتا، اس لیے اس نے مجھ سے ایسا کرنے کو کہا۔ وہ کئی سال سے بہت خاموش تھا اور اپنے باپ کے لیے نفرت کی وجہ سے تلخ ہو گیا تھا۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے والد کو ان تمام مظالم کی سزا دی جائے جو اس نے خاندان کے ساتھ رواں رکھے۔
جسمانی سزا
سوسائٹی فار پروٹیکشن آف رائٹس آف چلڈرن (اسپارک)کے پروگرام منیجر محمد کاشف مرزا نے حالیہ واقعہ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بچوں کے خلاف تشدد ہماری روایات اور معاشرتی اصولوں میں اس قدرجڑیں پکڑ چکا ہے کہ عملی طور پر مقدمات کی رپورٹنگ اور مجرموں کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی ہے۔ بہت سے بچوں کو جسمانی سزا تقریباً روزانہ کی بنیاد پر دی جاتی ہے اور اسے والدین، اساتذہ، مذہبی ٹیوٹرز،(غیر قانونی) آجروں اور انچارجوں کے فطری حق کے طور پر بڑے پیمانے پر قبول عام حاصل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جسمانی سزا کو عالمی سطح پر بچوں کے وقار اور بہبود کے لیے ایک سنگین خطرہ سمجھا جاتا ہے۔اقوام متحدہ کے کنونشن برائے حقوق اطفال آرٹیکل 37 کے تحت جسمانی سزا کی ممانعت ہے۔ آرٹیکل 19 کے تحت، پاکستان جسمانی سزا کو روکنے کے لیے عدالتی، انتظامیہ کےذریعے، سماجی اور تعلیمی اقدامات کرنے کا پابند ہے۔
کاشف مرزا نے بتایا کہ پاکستان وہ پہلا ملک ہے جس نے پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کے ذریعے پائیدار ترقیاتی اہداف( ایس ڈٰی جیز) 2030ء کا ایجنڈا اپنایا۔ لہٰذا، یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ایس ڈی جیز کے تمام اشارے پورے ہوں۔اس عزم کے باوجود پاکستان اب بھی ان ممالک میں شامل ہے جو تعلیمی اداروں اور گھروں میں جسمانی سزا کے خاتمے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ 23 فروری 2021 کو،پاکستان کی قومی اسمبلی نے ’’آئی سی ٹی پروبیشن آف کارپورل پنشمنٹ بل‘‘ کو قابل ستائش طور پر منظور کیا جس میں رسمی اور غیر رسمی تعلیمی اداروں، بچوں کی دیکھ بھال کے ادارے جیسےکہ بحالی مراکز، رضاعی گھروں اور دیگر اداروں میں جسمانی سزا کی تمام اقسام کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔
ماہر نفسیات کا مؤقف
نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ مار پیٹ، چیخنا اور نظر انداز کرنے جیسے تمام رویے ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہو سکتے ہیں،تاہم والدین اکثر زیادتی کے اس چکر کو توڑنے کے خواہشمند ہوتے ہیں،اگر انہیں صحیح مدد مل جائے۔اس سلسلے میں کیے گئے مطالعے کے نتائج بتاتے ہیں کہ والدین کی ناقص پرورش کا اثر ایک نسل سے دوسری نسل تک جاتا ہے۔ یہ بھی پایا گیا کہ ایک شخص کو بچپن میں جتنے زیادہ منفی تجربات ہوتے ہیں،اس کے بچوں کو بھی اتنی ہی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایک ماہر تعلیم کی رائے
ایک ماہر تعلیم محمد علی شیخ کا خیال ہے کہ ریاست اورمعاشرہ یکساں طورپرذمہ دار ہے کہ وہ ایسے واقعات سے بچنے کے لیے معاشرے کے خصائص کا خیال رکھیں۔انہوں نے دلیل دی کہ دو عوامل پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے،اول یہ کہ معاشرے کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی کو مارنا کوئی معمولی عمل نہیں ہے۔ تشدد ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا ہے،اورمزید تشدد کو جنم دیتا ہے۔تشدد کے خلاف خاموشی ایک انتہا پسند معاشرے کے درخت کوپروان چڑھاتی ہے، ایک ایسا درخت جسے نسلوں کی جنونیت اور بے حسی نے پالا ہے۔ آس پاس کسی بھی کمزور بچے کے ملنے پرفوری طور پر اس کی اطلاع دینی چاہیے۔دوسری بات یہ کہ ریاست کو ایسا مربوط نظام بنانا چاہیے تاکہ معاشرے کا کوئی بھی فرد ایسے کسی بھی ممکنہ واقعات کی نشاندہی کرکے ان کی اطلاع دے سکے۔ انہوں نے یہ بھی مشورہ دیا کہ اسکولوں کوبھی پیرنٹنگ سیشن منعقد کرکے اپنا کردارادا کرنا چاہیے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News