پاکستانی مصنفہ منیزہ شمسی ایک ، نقاد ، ادبی صحافی ، کتابیات نگار اور ایڈیٹر ہیں۔ وہ ایک ادبی تاریخ ’ہائبرڈ ٹیپٹریس‘ (آکسفورڈ یونیورسٹی پریس2017ء) کی مصنفہ بھی ہیں ۔منیزہ شمسی کو ’نی حبیب اللہ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ منیزہ شمسی ڈی ایس سی پرائز برائےا یشیائی ادب کی مشاورتی کمیٹی کی موجودہ رکن ہیں، 2013ء میں ان کی جیوری نے نمایاں خدمات انجام دیں ۔معزز مصنفہ 2009-2011 تک کامن ویلتھ رائٹرز پرائز کی علاقائی چیئرپرسن (یوریشیا) کے طور پر خدمات انجام دے چکی ہیں۔اس کے ساتھ ہی پاکستان میں کئی ادبی جیوریوں جیسے پطرس بخاری ایوارڈ اور زینت ہارون رشید رائٹنگ فار ویمن کے تعارف کا بھی حصہ رہیں ۔ منیزہ شمسی نے پاکستانی انگریزی ادب کے تین معروف انتھالوجیز کو ایڈٹ کیا ہے جن میں سوانحی افسانہ ’اینڈ دی ورلڈ چینجڈ‘ بھی شامل ہے۔ کراچی کی رہائشی منیزہ شمسی پاکستانی پریس کے لیے مضامین سے لے کر علمی اشاعتوں تک بہت سی قابل ذکر تحریریں لکھ چکی ہیں۔ان سے کی گئی گفتگو کو قارئین کی دلچسپی کے لیے شامل کیا جارہا ہے ۔
س
لکھنا ،کیا آپ کو وراثت میں ملا ہے ؟
جواب: مجھے نہیں معلوم کہ یہ میری جینز ( وراثت کی بنیادی جسمانی اور فعال اکائی) میں شامل ہے یا نہیں، لیکن میرے خاندان میں ہر کوئی کتابوں سے محبت کرتا ہے۔میری والدہ کی پہلی زبان اردو تھی جبکہ میرے والد کی پہلی زبان انگریزی تھی۔تو میری وابستگی صرف کتابوں سے ہی نہیں تھی بلکہ مجھے الفاظ سے محبت رہی ہے ۔درست لفظ کو سمجھنے اور اوراسے صحیح منظر نامے میں استعمال کرکے مجھے خوشی ہوتی ہے ۔یقینی طور پر ہمارا ماحول ہی ہمارے کردار کی تعمیر میں مدد گار ثابت ہوتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ اسی ماحول سے میری زندگی میں واضح فرق پڑا ہے۔
س
آپ کو اپنے کیریئر کا انتخاب کرنے کے لیے کس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا؟
جواب: اس کیریئر میں ،میں شادی کی وجہ سے آئی۔اگر میری شادی نہ ہوئی ہوتی تو میں کبھی بھی اس کیریئر کا انتخاب نہ کرتی۔ میں نے اس دور کا بھرپور لطف اٹھایا، اور پھر میرے دوستوں نے اصرار کیا کہ مجھے اسے تحریری طور پر استعمال کرتے ہوئے، اور شائع کروا کر اسے مزید نتیجہ خیز بنانا چاہیے۔مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنے کیرئیر کا آغاز اپنے کزن کے انٹرویو سے کیا ،جو ایک فلمی پروجیکٹ پر کام کر رہے تھے ۔ میں نے بلا ترتیب ان سے چند سوالات پوچھے اور ا س انٹرویو کو دو معروف اخبارات میں شائع ہونے کےلیے بھیج دیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب وہ انٹرویو اگلی صبح ایک اخبار میں شائع ہوا اور پبلی کیشن ہاؤس نے اسے بے حد پسند کیا۔پھر میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور مجھے صحافت اور لکھنے لکھانے سے محبت سی ہوگئی ۔
س
سوال: لکھنے کے حوالے سے کیا آپ اپنی والدہ سے بھی متاثر تھیں یا یہ جذبہ کہیں اور سے پروان چڑھا؟
جواب: مجھے لگتا ہے کہ یہ میری والدہ کے ٹائپ رائٹر کی آواز تھی جس نے مجھے متاثر کیا، بلاشبہ مجھے یہ شوق اور لگن اپنی والدہ کی طرف سے ملا۔ اگر چہ اس وقت مجھے لکھنے کے بارے میں اتنا اندازہ نہیں تھا، لیکن یقینی طور پر ایک بڑی طاقت نے مجھے اس میدان میں اترنے اور اپنی جگہ بنانے پر مجبور کیا۔لیکن میں ایک بار پھرکہوں گی کہ جو اہم عنصر مجھے اس درجے تک پہنچانے میں کامیاب ہو ا ، وہ یقیناً پڑھنے کے معاملے میں میر ا اپنا ذوق اور انتخاب ہے ۔میری والدہ نے کبھی بھی ہمیں خاص قسم کے ادب کو پڑھنے یا نہ پڑھنے کے لیے پابند نہیں کیا۔
س
آپ ہمیں اُس پہلی کتاب کے بارے میں بتائیں جس نے آپ کو متاثر کیا اور کیوں؟
جواب: میرے پاس ابھی بھی چارلس کنگسلے کے ناول ’ دی واٹر بیبیز‘ کی ایک کاپی موجود ہے۔
میں ناول میں جھلکنے والے اس خیال کی جانب بہت متوجہ ہوئی جو دوسروں کے ساتھ ایسے برتاؤ پر مبنی تھا ، جیسا رویہ آپ کسی سے اپنے لیے چاہتے ہیں ۔میں نے بچپن میں جب پہلی بار اس ناول کو پڑھا تواس کے مرکزی خیال نے میرے ہوش اُڑا دیئے تھے ، اور پھر میں نے ذاتی طور پر اسے اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا ، کیونکہ کہیں نہ کہیں یہ چھوٹا سا جملہ یا خیال میرے لیے بہت اہمیت اختیار کر چکا تھا۔
س
آپ کو سب سے زیادہ کس چیز سے نفرت ہے؟
جواب : کھانا، میں خوراک کے حوالے سے بہت زیادہ حساس ہوں۔ کم لیکن صحت بخش غذا لینا پسند کرتی ہوں ۔
س
آپ کا پسندیدہ جانور کون سا ہے؟
جواب : میرے خیال میں کتا اس کا بہتر جواب ہوسکتا ہے۔
س
کاملہ کے ناول میں آپ کا پسندیدہ کردار کون سا ہے؟
جواب: مجھے لگتا ہے کہ اس کے ناول میں جس کردار کو میں سب سے زیادہ پسند کرتی ہوں وہ ’برنٹ شیڈو‘ کا ہے ۔خیال رہے کہ فلم کا مرکزی کردار چینی ہے۔مختلف ثقافتوں کو سمجھنے اور ان ثقافتوں کو اپنانے کی کوشش کرنے کے لیے اس کی جدوجہد ناقابل یقین حد تک زبردست ہے۔مجھے لگتا ہے کہ یہ تحریر بڑی مہارت کے ساتھ معجزانہ طور پر لکھی گئی ہے ۔ اس ناو ل کے تمام کرداروں کو بڑی محنت سے تخلیق کیا گیا ہے ۔ مصنفہ نے غیر معمولی طور پر تمام کرداروں کے سفر کو خوبی سے بیان کیا ہے ۔اس لیے کسی ایک کا نام لینا یہاں مشکل ہے ۔
س
چھٹیوں کے لیے پاکستان میں آپ کا پسندیدہ مقام کون سا ہے اور کیوں؟
جواب: ہنزہ گلگت، یہ بڑی پرُ سکون جگہ ہے۔ وہاں کی جھیلیں ، ہوا ، پہاڑ اور یقیناً لوگ ناقابل یقین ہیں۔مجھے واقعی ان تمام عناصر کا ایک شاندار تجربہ حاصل ہوا ، جس کی وجہ سے چھٹیوں کے لیے ہنزہ ، میرا پسندیدہ ترین مقام بن گیا۔
س
اگر آپ کو ایک تبدیلی لانے کا اختیار دیا جائے تو وہ تبدیلی کیا ہوگی؟
جواب:میں سب کو رنگ ، نسل،اور کسی بھی دوسری شناخت سے بالاتر ہو کر احترام کا پیغام دینا چاہوں گی ۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News