Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

غلط ٹیسٹ پر لیبارٹری کی سنگین غفلت

Now Reading:

غلط ٹیسٹ پر لیبارٹری کی سنگین غفلت

سندھ کی لیبارٹریوں میں سے تقریباً نصف کراچی میں ہیں جہاں کووڈ کے ٹیسٹ  اس وبا کے بعد سے باقاعدہ کاروبار کی شکل اختیار کرچکا ہے۔  ڈی ایچ اے میں مشہور برانڈ کی ایک لیب بغیر سرٹیفیکیشن اور ہنر مند عملے کے کام کرتی پائی گئی اور بالآخر صارفین کو دھوکہ دینے پر اس پر جرمانہ عائد کیا گیا۔

یہ  معاملہ اس وقت شروع ہوا جب ایڈووکیٹ مرید علی شاہ نے گزشتہ سال مارچ میں اپنی فیملی کے ساتھ چھٹیوں پر بیرون ملک جانے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ دنیا بھر میں کورونا کی پابندیوں میں کافی حد تک نرمی آچکی تھی، تاہم کچھ فضائی کمپنیاں اب بھی حفاظتی اقداما ت کو یقینی بنانے کے لیے کووڈ-19 پی سی آر ٹیسٹ رپورٹ کا مطالبہ کر رہی تھیں۔

متحدہ عرب امارات  کی ایئر لائن کو سفر کی تاریخ سے پہلے ٹیسٹ  کی رپورٹ درکار تھی۔ مرید علی شاہ، اپنی اہلیہ اور دو بچوں کے ساتھ، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے فیز VI میں  واقع چغتائی لیب چلے گئے۔

عملے نے ان کے نمونے لیے اور جب رپورٹس آئیں تو ان کی اہلیہ کا ٹیسٹ مثبت اور باقی خاندان کا منفی آیا۔

اب قرنطینہ ہی واحد آپشن بچا تھا، تاہم مرید علی شاہ یہ سوچتے رہے کہ انہیں اور ان کے بچوں کو وائرس کیسے نہیں لگا۔  وہ کہتے ہیں ، “میں نے ایک دوسری لیبارٹری سے ٹیسٹ دوبارہ کروانے کا فیصلہ کیا،” اور اگلے ہی دن اپنی اہلیہ، بی بی یسرا کو اسی ٹیسٹ کے لیے آغا خان لیبا ریٹری لے گئے۔ موصول ہونے والی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق ہوئی کہ وہ وائرس کا شکار نہیں ہوئی تھیں۔

Advertisement

لیکن ان کی آزمائش وہیں ختم نہیں ہوئی۔ جب مرید علی شاہ ٹریول ایجنٹ کے دفتر پہنچے جہاں سے انہوں نے ٹکٹ حاصل کیے تھے، تو وہ یہ جان کر حیران رہ گئے کہ چغتائی لیب نے ان کی اہلیہ کے پی سی آر ٹیسٹ کی رپورٹ ایئر لائن کو پہلے ہی ارسال کردی تھی۔

  پہلے مرید علی شاہ نے رپورٹ کو درست کرانے کے لیے چغتائی لیب سے رجوع کیا اور جب انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا تو وہ سندھ ہائی کورٹ پہنچ  گئے اور عدالت نے سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کو تحقیقات کرنے کی ہدایت کی۔ مرید علی شاہ کے مطابق، ایس ایچ سی سی ایکٹ کے تحت چغتائی لیب کی طرف سے مناسب اور درست ٹیسٹنگ سروس کی فراہمی میں کوتاہیاں، سنگین غفلت اور صلاحیت اور اہلیت کی کمی تھی۔ان کی درخواست پر عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے ائیر لائنز کے لیے منظور شدہ لیبز کی فہرست سے لیب کا نام ہٹانے اور اپنے اپنے دائرہ اختیار میں تمام پیتھولوجیکل لیبارٹریز اور دیگر طبی سہولیات پر سخت ضابطوں کے نفاذ کو یقینی بنانے کی ہدایات جاری کردیں۔

سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر کمیشن نے مرید علی شاہ کی شکایت پر چغتائی لیب کے معاملات کی باقاعدہ تحقیقات کا آغاز کیا اور انکوائری کمیٹی تشکیل دی۔ لیب کے معائنے کے لیے ایک الگ کمیٹی بنائی گئی جس کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ لیب کے پاس کلیکشن پوائنٹ کے لیے ایس ایچ سی سی رجسٹریشن سرٹیفکیٹ نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جو لیب میں دکھایا گیا وہ حقیقی نہیں تھا۔ دو افراد خون کے نمونے لینے والے ماہر )فلیبوٹومسٹ (کے ساتھ ساتھ فرنٹ ڈیسک آفیسرز کے طور پر بھی کام کر رہے تھے۔

ان میں سے ایک نے دعویٰ کیا کہ اس کے پاس بطور لیبارٹری ٹیکنیشن ڈپلومہ ہے، جب کہ دوسرے نے  کسی اور لیب سے تربیت حاصل کی تھی، اس کی مزید کوئی قابلیت نہیں تھی۔ عملے کی فہرست، لیبارٹری ٹیسٹوں کی فہرست اور قیمت، عملے کی طبی اسناد معائنہ ٹیم کو فراہم نہیں کی گئیں اور نہ ہی فضلے کو ٹھکانے لگانے کا ریکارڈ کو مہیا کیا گیا۔ معائنہ کرنے والی ٹیم نے  خون کے نمونے لینے کے لیے مخصوص جگہ پر آلات کو زنگ آلود پایا اور سیفٹی باکس میں سرنج کی سوئیوں پر کیپ بھی چڑھی ہوئی تھی۔

انکوائری کمیٹی نے مرید علی شاہ کی شکایت پر سماعت کے لیے لیب کے چیف آپریٹنگ آفسر کو نوٹس جاری کیا، لیکن  وہ حاضر نہیں ہوئے۔ پیتھالوجسٹ اور برانچ منیجر نے ان کی نمائندگی کی۔ انکوائری کمیٹی کی رپورٹوں کے علاوہ  ایک طبی ماہر کے ذریعہ معائنہ کرنے والی ٹیم کے جائزہ کے بعد، SHCC نے لیب  کو کلیکشن پوائنٹ کے لیے رجسٹریشن کا عمل شروع کرنے،  معیار کو یقینی بنانے  کے بارے  میں پالیسیوں کی سختی سے تعمیل کرنے اور اہل عملے کو بھرتی کرنے کے لیے لیب کو ہدایات جاری کیں اور ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔

لیب کے خلاف کارروائی کرنے کے بعد، ایس ایچ سی سی نے اس درخواست کے نمٹائے جانے کا انتظار کیا کیونکہ وہ اس کے مطابق عمل کرچکے تھے۔ تاہم، درخواست گزار نے کئی متفرق درخواستیں دائر کیں جن میں سندھ میں صحت کی مختلف سہولیات بشمول اسپتالوں، کلینکوں، لیبارٹریوں اور فارمیسیوں کو منظم کرنے میں ایس ایچ سی سی کے کردار کے بارے میں معلومات طلب کی گئیں۔ عدالت نے کمیشن کو ایسی تمام تفصیلات داخل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

Advertisement

دلچسپ حقائق:

کمیشن کے  پاس رجسٹرڈ لیبارٹریوں کی تعداد کے بارے میں اس سال کے شروع میں پیش کی گئی رپورٹ صوبے میں لیبارٹری کی سہولیات کے بارے میں ایک دلچسپ رخ فراہم کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق صوبے میں کل 635 لیبارٹریاں کام کر رہی ہیں اور ان میں سے تقریباً نصف (307 یا 48اعشاریہ34 فیصد) صرف کراچی ڈویژن میں ہیں۔ اگر 2017ء کی قومی مردم شماری کے اعدادوشمار کو ایک معیار کے طور پر لیا جائے تو شہر میں 52ہزار285 افراد کے لیے ایک لیب دستیاب ہے جب کہ باقی صوبے میں ایک لیب 96 ہزار773 افراد کے لیے دستیاب ہے۔4 کروڑ 78 لاکھ 90 ہزارکی آبادی والے پورے صوبے میں 75ہزار417 افراد کے لیے ایک لیب ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ صوبے میں کوئی بھی لیب ایس ایچ سی سی کے پاس رجسٹرڈ ہوئے بغیر کام نہیں کر سکتی۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
آئی ایم ایف کے پاس جانا ناکامی کی علامت ہے، شاہد خاقان عباسی
ورلڈ اکنامک فورم، وزیر اعظم کی امیر کویت سے ملاقات
بطور وزیر اعظم میں نے 58-2 بی کا خاتمہ کیا، یوسف رضا گیلانی
چینی برآمد کرنے کا جلد از جلد فیصلہ کیا جائے، شوگر ملز ایسوسی ایشن
مولانا فضل الرحمان کا ذمہ داران سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب
کالی چائے کے ٹیکس چھوٹ کا غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر