این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ الیکشن کے معاملے پرسماعت کے دوران سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو دھاندلی کے شواہد پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ میں این اے 75 ڈسکہ الیکشن کیس کی سماعت جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ پولیس تعاون نہیں کر رہی تھی تو متبادل انتظام کیوں نہیں کیا گیا ؟ الیکشن کمیشن کو منظم دھاندلی کے شواہد عدالت میں ثابت کرنا ہوں گے۔
مسلم لیگ ن کی امیدوار نوشین افتخار کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ دیہی علاقوں میں ٹرن آؤٹ 52 فیصد رہا اور شہری علاقوں میں فائرنگ کے باعث ٹرن آؤٹ 35 فیصد سے کم تھا۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ پورے حلقے میں ری پول کا فیصلہ برقرار رکھیں نہیں تو متنازعہ پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کرائی جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابی عمل میں رکاوٹیں منصوبے کے تحت ڈالی گئیں۔ انتظامیہ کے عدم تعاون کی وجہ سے فائدہ حکومتی امیدوار کو ہوا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل میاں عبدالرؤف نے دلائل دیتے ہوئے لاپتہ پریزائیڈنگ افسران کی لوکیشن عدالت میں جمع کروا دی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے کے بعد لوکیشن کیوں منگوائی ؟پریزائیڈنگ افسران کی لوکیشن کی قانونی حثیت نہیں ،جس مواد پر الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا تھا صرف وہ پیش کرنا ضروری ہے۔ فیصلہ کرتے وقت الیکشن کمیشن کو معلوم ہی نہیں تھا معاملہ کیا ہے؟
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ حلقے سے باہر جاکر پریزائیڈنگ افسران اور پولیس کے موبائل بند ہو گئے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دئیے کہ سیکیورٹی اقدامات اطمینان بخش نہیں تھے تو الیکشن کمیشن کو بڑھ کر اقدامات کرنا چاہیے تھے۔7 فروری سے پولیس تعاون نہیں کر رہی تھی، جبکہ الیکشن 19 فروری کو ہوا، پولیس تعاون نہیں کر رہی تھی تو متبادل انتظام کیوں نہیں کیا گیا ؟ کیوں انتخابی عمل ملتوی کر کے پولیس کے خلاف کاروائی نہیں کی گئی ؟
عدالت نے الیکشن کمیشن سے منظم دھاندلی کے شواہد طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News