Tue, 21-Oct-2025

تازہ ترین خبریں:

سال 2025 کراچی کیلئے خوف، دکھ ، اور دل دہلا دینے والے واقعات کا سال ثابت ہوا

سال 2025 ختم ہو گیا، مگر یہ واقعات آج بھی کراچی والوں کے دل و دماغ میں زندہ ہیں

 سال 2025 نہ صرف پاکستان بلکہ شہر قائد کے باسیوں کیلئے بھی ایک ایسا سال ثابت ہوا جس نے دکھ، خوف اور بے بسی کے گہرے نقوش چھوڑ دیے۔

یہ وہ سال تھا جس میں یکے بعد دیگرے ایسے دل دہلا دینے والے واقعات سامنے آئے جنہوں نے انسانیت، قانون اور نظام پر کئی سوالیہ نشان لگا دیے۔

7 جنوری 2025 کو نارتھ کراچی سے سات سالہ صارم کے لاپتہ ہونے کی خبر نے شہر کو ہلا کر رکھ دیا۔ والدین کی فریادیں، سوشل میڈیا پر اپیلیں اور دعائیں، سب کچھ اس وقت خاموش ہو گیا جب 18 جنوری کو بچے کی لاش قریبی پانی کے ٹینک سے ملی۔

یہ واقعہ ایک قومی سانحہ بن گیا، کمیٹیاں بنیں، تحقیقات ہوئیں، مگر قاتل آج بھی قانون کی گرفت سے باہر ہے۔

8 جولائی 2025 کو ایک اور صدمہ اس وقت سامنے آیا جب ڈی ایچ اے فیز 6 میں اداکارہ و ماڈل حمیرا اصغر کی لاش ان کے کرائے کے اپارٹمنٹ سے برآمد ہوئی۔

خودکشی یا قتل؟ یہ سوال آج بھی جواب کا منتظر ہے۔ تفتیشی عمل، کمیٹیاں اور دعوے سب بے نتیجہ ثابت ہوئے۔

4 جولائی 2025 کو لیاری میں پانچ منزلہ عمارت زمین بوس ہو گئی۔ اس حادثے میں 16 مرد، 9 خواتین اور 2 معصوم بچے جاں بحق ہو گئے۔

مرنے والوں کی اکثریت کا تعلق ہندو برادری سے تھا۔ 27 جانوں کے ضیاع کے بعد بھی یہ سوال تشنہ ہے کہ ذمہ دار کون تھا؟

14 اگست کو یومِ آزادی کے دن ڈی ایچ اے میں 37 سالہ خاتون ادیبہ نے اپنے دو کمسن بچوں کو ذبح کر دیا۔ یہ واقعہ معاشرتی زوال اور ذہنی دباؤ کی خوفناک تصویر بن کر سامنے آیا۔

30 نومبر کو گلشن اقبال نیپا چورنگی کے قریب کھلے گٹر میں گرنے سے 3 سالہ ابراہیم جاں بحق ہوا۔ بچے کی لاش 14 گھنٹے بعد ایک کلومیٹر دور نالے سے ملی۔

اس سانحے کے چند دن بعد کورنگی زمان ٹاؤن میں 70 سالہ شہری بھی کھلے نالے میں گر کر جان کی بازی ہار گیا۔ یہ واقعات انتظامی غفلت کا نوحہ بن گئے۔

2 دسمبر کو اورنگی ٹاؤن میں عوام نے ایک مبینہ ڈاکو کو پکڑ کر زندہ جلا دیا۔ جلتے ہوئے انسان کی وہ تصویر لوگوں کے ذہنوں پر ایسے نقش ہو گئی جس نے پورے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا۔

7 دسمبر کو گلشن اقبال کی ایک رہائشی عمارت سے ماں، بیٹی اور بہو کی لاشیں برآمد ہوئیں۔ مقتول خواتین کی شناخت 52 سالہ ثمینہ، 22 سالہ ماہا اور 19 سالہ ثمرین کے نام سے ہوئی۔

بیٹا یاسین زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا۔ بعد ازاں باپ اور بیٹے نے قتل کا اعتراف کیا اور وجہ معاشی تنگی بتائی گئی۔

چند روز قبل سہراب گوٹھ میں ایک ہی گھر سے ماں اور تین بچوں کی لاشیں ملنے پر علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ پولیس نے باپ اور بیٹے کو حراست میں لیا، مگر قاتل کا سراغ نہ مل سکا۔

اسی طرح کورنگی مہران ٹاؤن سیکٹر 6 جی میں 8 سالہ دلبر علی کھلے مین ہول میں گر کر جان سے گیا۔ یہ واقعہ بھی ان گنت سانحات کی فہرست میں شامل ہو گیا۔

سال 2025 ختم ہو گیا، مگر یہ واقعات آج بھی کراچی والوں کے دل و دماغ میں زندہ ہیں۔

یہ سانحات صرف حادثات نہیں، بلکہ ایک ایسے نظام کی عکاسی ہیں جو سوال تو چھوڑ جاتا ہے، مگر جواب نہیں دے پاتا۔ کراچی نے اس سال صرف جانیں نہیں کھوئیں، بلکہ اعتماد، تحفظ اور سکون بھی کہیں دفن ہو گیا۔

متعلقہ خبریں