Site icon بول نیوز

انسانی دماغ کے خلیوں سے تیار کردہ کمپیوٹرز آرہے ہیں، کیا ہم تیار ہیں؟

انسانی دماغ کے خلیوں سے تیار کردہ کمپیوٹرز آرہے ہیں، کیا ہم تیار ہیں؟

مصنوعی ذہانت کی موجودہ ٹیکنالوجی اپنی حدوں کو چھو رہی ہے اور اسی دوران ایک نیا اور حیران کن رجحان تیزی سے ابھر رہا ہے کہ انسانی دماغ کے خلیوں سے تیار کردہ کمپیوٹرز آرہے ہیں جنہیں بائیو کمپیوٹرز کہا جارہا ہے۔

یہ ’’زندہ کمپیوٹرز‘‘ ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں لیکن یہ پہلے ہی و نگ جیسے کھیل کھیلنے اور بنیادی اسپیچ ریکگنیشن جیسے کام انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

بائیو کمپیوٹرز میں اچانک دلچسپی کیوں بڑھی؟

سائنس دانوں کے مطابق اس بڑھتی ہوئی دلچسپی کی تین بڑی وجوہات ہیں جن میں اے آئی سے متعلق ہر شعبے میں سرمایہ کاری بڑھ گئی ہے جس سے تجرباتی اور غیر روایتی آئیڈیاز کو بھی فنڈنگ مل رہی ہے۔

لیب میں دماغی ٹشوز کی تیاری نے حیران کن ترقی کی ہے، جسے پہلے ہی فارماسیوٹیکل صنعت اپنا رہی ہے۔

برین کمپیوٹر انٹرفیس ٹیکنالوجی میں زبردست پیش رفت نے انسان اور مشین کے درمیان سرحدوں کو مزید دھندلا کردیا ہے۔

اس کے باوجود یہ سوال موجود ہے کہ آیا ہم واقعی ایک سائنسی انقلاب کے دہانے پر کھڑے ہیں یا یہ سب صرف ٹیکنالوجی کا نیا ہائپ ہے؟ اور سب سے اہم جب انسانی دماغ کے خلیے کمپیوٹنگ میں استعمال ہوں تو اس کے اخلاقی نتائج کیا ہوں گے؟

یہ ٹیکنالوجی ہے کیا؟

تقریباً 50 سال سے نیوروسائنٹسٹس خلیات کو الیکٹروڈز پر رکھ کر ان کی سرگرمی کا مطالعہ کرتے آئے ہیں۔ 2000 کی دہائی میں پہلی بار انسان نے زندہ نیورونز اور مشین کے درمیان دو طرفہ رابطہ قائم کیا لیکن حقیقی پیش رفت 2013 کے بعد ہوئی جب سائنس دانوں نے اعلان کیا کہ اسٹیم سیلز خود بخود ڈی 3 دماغی ساختیں بناسکتی ہیں جنہیں ’’آرگنائیڈز‘‘ کہا جاتا ہے۔

یہ آرگنائیڈز آج وسیع پیمانے پر ادویاتی تحقیق اور بیماریوں کے مطالعے میں استعمال ہوتے ہیں تاہم یہ ابھی تک مکمل دماغ جیسی منظم سرگرمی نہیں دکھاتے اور نہ ہی ان میں شعور کے کوئی آثار پائے گئے ہیں۔

آرگنائیڈز انٹیلیجنس، حقیقت یا مبالغہ؟

2022 میں آسٹریلوی کمپنی کارٹیکل لیبز نے اعلان کیا کہ لیب میں تیار کردہ نیورونز پونگ کھیل سکتے ہیں۔ اس تجربے نے دنیا بھر میں دھوم مچائی لیکن ماہرین نے خبردار کیا کہ اسے شعور کا آغاز سمجھنا غلط ہوگا۔

بعد ازاں ’’آرگنائیڈ انٹیلیجنس‘‘ کی اصطلاح سامنے آئی جو سننے میں تو متاثرکن لگتی ہے لیکن عملی طور پر یہ ٹیکنالوجی ابھی اے آئی سسٹمز کے قریب بھی نہیں پہنچی۔

اخلاقی مباحثے بھی تیزی سے پیچھے رہ گئے ہیں جب کہ تحقیق اور کمرشل سرگرمیاں غیر معمولی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہیں۔

دنیا بھر میں تیز مقابلہ

امریکا، چین، سوئٹزرلینڈ اور آسٹریلیا کی کمپنیاں بائیو کمپیوٹنگ کے میدان میں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ سوئس کمپنی فائنل اسپارک پہلے ہی اپنے نیورل آرگنائیڈز تک ریسرچرز کو ریموٹ رسائی دے رہی ہے۔

کارٹیکل لیبز ’’سی ایل 1‘‘ نامی ڈیسک ٹاپ بائیو کمپیوٹر مارکیٹ میں لانے کی تیاری کر رہی ہے، جسے نہ صرف فارما انڈسٹری بلکہ اے آئی ریسرچرز بھی استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

امریکی یونیورسٹی یو سی سین ڈیاگو نے تو 2028 تک آرگنائیڈز کمپیوٹرز کی مدد سے ایمازون میں تیل کے رساؤ کی پیشگوئی کرنے کا منصوبہ بھی پیش کردیا ہے۔

کیا یہ کمپیوٹنگ کا مستقبل ہے؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ بائیو کمپیوٹرز میں نہ تو شعور ہے اور نہ ہی اعلیٰ ذہانت۔ یہ صرف بیرونی معلومات کے مطابق رد عمل دے کر سیکھنے کی محدود صلاحیت رکھتے ہیں۔

تاہم جیسے جیسے ایلون مسک جیسے سرمایہ کار دماغی امپلانٹس اور ٹرانس ہیومنزم کی بات کرتے ہیں، ایک بڑا سوال سامنے آتا ہے: کیا ایک دن انسانی خلیوں پر مشتمل کمپیوٹر ’’اخلاقی حیثیت‘‘ کا مستحق بن سکتا ہے؟

ٹیکنالوجی ابھی ابتدا میں ہے لیکن اس کی تیز رفتار ترقی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ شعور، شخصیت اور انسانی ٹشوز کو مشینوں میں شامل کرنے کے اخلاقی سوالات توقع سے کہیں پہلے ہمارے سامنے آسکتے ہیں۔

Exit mobile version