ٹیکنالوجی کنگ ایلون مسک نے غربت سے متعلق حیران کن دعویٰ کردیا ۔ان کے اس دعوے کے بعدعالمی سطح پر بحث چھڑ گئی ۔
ایلون مسک نے دعویٰ کیاتھا کہ آنے والے وقت میں دنیا سے غربت کا مکمل طور پر خاتمہ ہو جائے گا۔ ان کا کہناتھاکہ انسانوں کو پیسے بچانے کی ضرورت بھی باقی نہیں رہے گی۔
انہوں نے کہا ہے کہ مصنوعی ذہانت (AI) اور جدید ٹیکنالوجی انسانی زندگی اور معاشی نظام کومکمل بدل دے گی۔
ان کاکہناتھاکہ اس بدلائو کے سبب موجودہ اقتصادی ڈھانچہ برقرار نہیں رہ سکے گا۔ ان کا ماننا ہے کہ خودکار مشینیں اور روبوٹس زیادہ تر کاموں کو اپنے ہاتھ میں لے لیں گے۔
انہوں نے کہاکہ تیجے میں پیداوار میں غیر معمولی اضافہ ہوگا اور اشیائے ضروریہ کی قلت بھی ختم ہو جائے گی ۔
کام کرنا ایک ذاتی انتخاب بن جائے گا
مسک کے مطابق، جب خوراک، رہائش اور توانائی جیسے بنیادی ضروریات وافر مقدار میں دستیاب ہوں گی۔ انسانوں کو روزگار کے ذریعے زندہ رہنے کی مجبوری نہیں ہوگی۔
اس کے بجائے کام کرنا ایک ذاتی انتخاب بن جائے گا۔ ایلون مسک کا کہنا ہے کہ مستقبل میں ہر فرد کو ایک طرح کی عالمی اعلیٰ آمدن میسر ہوگی۔
پیسے کی روایتی اہمیت کم ہو جائے گی
ٹیکنالوجی کنگ نے مزید کہا کہ جب ٹیکنالوجی بنیادی ضروریات کو سستا، آسان اور عام بنا دے گی۔ تو پیسے کی روایتی اہمیت کم ہو جائے گی۔
اس کے نتیجے میں لوگوں کو بچت کرنے کی فکر بھی نہیں رہے گی۔ انہوں نے ماضی میں بھی یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ مصنوعی ذہانت انسانی معاشروں میں بنیادی تبدیلیاں لائے گی ۔
انہوں نے کہاکہ یہ تبدیلیاں معاشی ڈھانچے میں انقلابی نوعیت کی ہوں گی ۔
مستقبل کا انسان ، تخلیقی سرگرمیاں اور ذاتی دلچسپی
مسک کا یہ کہنا ہے کہ انسان زیادہ وقت تخلیقی سرگرمیوں، سیکھنے،تحقیق اور ذاتی دلچسپیوں پر صرف کر سکے گا۔ روزمرہ کے محنت طلب اور مشکل کاموں کو مشینیں انجام دیں گی۔
جس سے انسانوں کو خود کو مادی کاموں میں ملوث ہونے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
ماہرین کا ردعمل اور چیلنجز
اگرچہ ٹیکنالوجی کنگ ایلون مسک کا یہ وژن بہت امید افزا نظر آتا ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا عملی نفاذ ایک طویل المدتی تصور ہے۔
جس کے لیے عالمی سطح پر بڑے معاشی، سماجی اور سیاسی فیصلوں کی ضرورت ہوگی۔
دریں اثنا کچھ ناقدین کا ہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کے تیز تر ارتقا کے باوجودغربت کا خاتمہ ممکن نہیں ہوگا۔
نئی بحث کا آغاز
مزید براں ٹیکنالوجی کنگ ایلون مسک یہ بیان عالمی سطح پر ایک اہم بحث کا آغاز کر رہا ہے۔ جس میں مستقبل کے معاشی نظام، روزگار اور انسانی زندگی کے حوالے سے نئے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
یہ ایک ایسا وژن ہے جس کے نفاذ کے لیے وسیع پیمانے پر عالمی تعاون اور فیصلہ سازی کی ضرورت ہوگی۔




















