یونیورسٹی آف پنسلوانیا (پین) اور یونیورسٹی آف مشی گن کے سائنس دانوں نے دنیا کے سب سے چھوٹے خودکار اور قابلِ پروگرام روبوٹس تیار کر لیے ہیں جو مستقبل میں انسانی جان بچانے میں مدد دے سکتے ہیں۔
ان روبوٹ کی چوڑائی تقریباً 200 مائیکرومیٹر ہے، جو انسانی بال کی موٹائی سے تقریباً دو گنا ہے۔ یہ ننھی مشینیں اپنے ماحول کو محسوس کرنے کے ساتھ سوچ سکتی ہیں اور بغیر کسی بیرونی ہدایت کے خود فیصلے کر کے حرکت کر سکتی ہیں۔
محققین کے مطابق، یہ ٹیکنالوجی مستقبل میں انسانی جسم کے اندر انفرادی خلیوں کی صحت پر نظر رکھنے یا بیماریوں کے علاج کے لیے مخصوص جگہوں پر دوا پہنچانے میں استعمال ہو سکتی ہے۔

صرف ایک ملی میٹر کے پانچویں حصے کے برابر روبوٹ کو بغیر کسی بیرونی مدد کے خود حرکت کرنے کے قابل بنادینا محققین کی سب سے بڑی کامیابی ہے، جبکہ سائنس دانوں کے لیے یہی کام کئی دہائیوں سے ایک بڑا چیلنج بنا ہوا تھا۔
خردبینی سطح پر رگڑ اور گاڑھے پن جیسی قوتیں بہت زیادہ اثر اندازہوتی ہیں، جس کی وجہ سے مائع میں حرکت کرنا مشکل ہوتا ہے، پین کی ٹیم نے اس مسئلے کے حل کے لیے ایک نیا نظامِ حرکت (پروپلشن سسٹم) تیار کیا۔
یہ مائیکرو روبوٹس ایل ای ڈی روشنی سے طاقت حاصل کرتے ہیں اور ہائیڈروجن پرآکسائیڈ کے محلول میں کام کرتے ہیں، جو ان کے لیے ایندھن فراہم کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جسم کے مخصوص مقامات پر دوا پہچانے والا روبوٹ تیار
یہ روبوٹ ایک برقی میدان پیدا کرتا ہے جو محلول میں موجود آئنز کو حرکت دیتا ہے، اور یہ آئنز پانی کے سالمات کو اپنے ساتھ کھینچتے ہیں۔ روبوٹس اس برقی میدان کو ایڈجسٹ کر کے پیچیدہ انداز میں حرکت کر سکتے ہیں اور گروہوں کی شکل میں بھی سفر کر سکتے ہیں، جن کی رفتار ایک سیکنڈ میں اپنے جسم کی لمبائی کے برابر ہوتی ہے۔
دنیا کے سب سے چھوٹے خودکار روبوٹ کے لیے اسی طرح کے کمپیوٹر کی بھی ضرورت تھی، جسے مشی گن یونیورسٹی میں ڈیوڈ بلاو کی ٹیم نے تیار کیا۔
محققین نے اس مائیکرو کمپیوٹر کو پین کے نظامِ حرکت کے ساتھ جوڑا اور ایک مکمل کمپیوٹر بنایا جس میں پروسیسر، میموری اور سینسر شامل ہیں، اور یہ سب ایک ملی میٹر سے بھی چھوٹی چِپ پر موجود ہیں۔
یہ روبوٹ ننھے شمسی پینلز کے ذریعے روشنی حاصل کرتا ہے جو صرف 75 نینو واٹ توانائی پیدا کرتے ہیں، جو ایک اسمارٹ واچ سے ایک لاکھ گنا کم ہے۔ اس انتہائی کم توانائی کے باعث، محققین کو کمپیوٹر سرکٹس کو بہت کم وولٹیج پر چلانے کے لیے ڈیزائن کرنا پڑا، جس سے توانائی کے استعمال میں ایک ہزار گنا سے زیادہ کمی ہوئی۔
اس نظام کی ایک حیران کن خصوصیت اس کی کم لاگت ہے۔ بڑے پیمانے پرتیاری کے نتیجے میں اگرچہ ہر روبوٹ پر صرف ایک سینٹ خرچ آتا ہے، لیکن یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ انہیں کنٹرول کرنے کا نظام بہت مہنگا ہوگا، مگر ایسا نہیں ہے۔
پین انجینئرنگ کے پروفیسر اور تحقیق کے مرکزی مصنف مارک مسکن کے مطابق، اس پورے نظام کی لاگت تقریباً 100 ڈالر ہے۔
ٹیم نے عام ایل ای ڈی لائٹس، ایک راسبیری پائی کمپیوٹر، اور میکرو لینس کے ساتھ اسمارٹ فون کیمرے پر مشتمل ایک سستا نظام تیار کیا ہے، جو مہنگے ایک لاکھ ڈالر کے مائیکرواسکوپ جتنا مؤثر ثابت ہوا ہے۔
یہ مائیکرو روبوٹس ایسے الیکٹرانک سینسرز سے لیس ہیں جو درجہ حرارت کو ایک تہائی ڈگری سینٹی گریڈ کی درستگی سے ناپ سکتے ہیں، جس سے وہ انفرادی خلیوں کی صحت کی نگرانی کر سکتے ہیں۔ تاہم، انسانی صحت میں استعمال سے پہلے کئی رکاوٹیں موجود ہیں۔
مثلاً، ان روبوٹس کو مسلسل روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر روشنی بند ہو جائے تو روبوٹ بند ہو جاتا ہے اور اس کی یادداشت ختم ہو جاتی ہے، مزید یہ کہ فی الحال یہ روبوٹس ہائیڈروجن پرآکسائیڈ کے ایسے محلول میں کام کرتے ہیں جو زندہ خلیوں کے لیے زہریلا اور مضرہے، یہی وجہ ہے کہ ابھی اس کا طبی استعمال ممکن نہیں۔ تاہم، محققین ایسے حیاتیاتی طور پر محفوظ متبادل نظام پر کام کر رہے ہیں۔
مارک مسکن ان روبوٹس کو خردبینی پرزوں کی تیاری اور جوڑنے کے لیے استعمال کرنے کے امکانات پر بھی خاصے پُرامید ہیں۔ ان کے مطابق، یہ ٹیکنالوجی لاگت کم کر سکتی ہے، ڈیزائن کے عمل کو تیز بنا سکتی ہے اور نئی ایجادات کے دروازے کھول سکتی ہے۔




















