Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

او آئی سی کی تاریخ

Now Reading:

او آئی سی کی تاریخ

25 ستمبر 1969کو اسلامی سربراہی کانفرنس کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی، اس کے چھ ماہ بعد ایک مرتبہ پھر سعودی عرب آگے بڑھا اور اسلامی ممالک کے تمام وزراء خارجہ کا پہلا باقاعدہ اجلاس جدہ میں منعقدہ کیا گیا۔

 1972 میں او آئی سی کو باقاعدہ تنظیم کی شکل دی گئی اور یہ طے پایا کہ اس کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہر سال منعقد ہوگا جبکہ سربراہی اجلاس ہر تین سال بعد منعقد ہوا کرے گا۔

57 اسلامی ملکوں پر مشتمل اس تنظیم کو اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی عالمی تنظیم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

چالیس سال میں اس کی رکن ممالک کی تعداد 30 سے بڑھ کر 57 ہوگئی۔

او آئی سی کے مقاصد

Advertisement

او آئی سی کے چارٹر میں کہا گیا ہے کہ ’اسلامی، اقتصادی اقدار کا تحفظ، آپس میں یکجہتی کا فروغ، سماجی، اقتصادی، ثقافتی، سائنسی اور سیاسی شعبوں میں تعاون کو فروغ، عالمی امن و سلامتی کے قیام کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم خاص طور پر سائس و ٹیکنالوجی کو فروغ دی جائے گا۔

او آئی سی دنیا بھر کے 1.8 ارب مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا کہ اس تنظیم نے اپنے پلیٹ فارم سے اپنے قیام سے لے کر آج تک مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ اور مسائل کے حل کے سلسلے میں سوائے اجلاسوں کے کچھ نہیں کیا۔

اب تک کتنے اجلاس ہوچکے ہیں اور نتیجہ کیا نکلا؟

ملکوں کے درمیان تنازعات کے پرامن حل سے متعلق او آئی سی کے منشور میں بیان کیا گیا ہے کہ ’کسی بھی تنازعے کو مذاکرات، وساطت، مصالحت اور ثالثی کے ذریعے حل کرایا جائے گا۔

 اپنے منشور کی روشنی میں تنظیم نے پاکستان و بنگلہ دیش 1971-74، ایران و عراق 1980-88، سینگال و موریطانیہ 1989، عراق و کویت 1990-91 تنازعات اور فلپائن و تھائی لینڈ میں مسلم اقلیتوں کو درپیش مسائل حل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔

 تنظیم نے 1989 سے افغانستان میں جاری خانہ جنگی رکوانے کے لیے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن پھر بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

Advertisement

او آئی سی نے افغانستان، بوسنیا، مقبوضہ کشمیر، آذربائیجان، چیچنیا، جنوبی فلپائن، کوسوو، لبنان، الجزائز، سوڈان اور عراق جیسے معاملات پر اجلاس منعقد کیا لیکن اسکا کچھ نہیں ہوسکا تاہم فلسطین اور بوسنیا کے معاملے پر او آئی سی زیادہ سرگرمی دکھائی ہے۔

سنہ 2000 کو قاہرہ میں ہونے والے عرب لیگ اور اسی سال قطر میں ہونے والے سربراہی اجلاس کے موقعے پر او آئی سی کے کچھ رکن ملکوں نے اسرائیل کے مکمل سفارتی بائیکاٹ کی حمایت کی تھی۔

 اسرائیل سے سیاسی اور معاشی راوبط رکھنے والے دوسرے اسلامی اور عرب ملکوں نے تل ابیب سے سفارتی روابط برقرار رکھنے کے حق میں آواز اٹھائی۔

امریکہ کی قیادت میں 2003 کو عراق پر حملے اور اس کے نتیجے میں صدام حسین حکومت کے خاتمے کے بعد ملک میں شیعہ سنی کشیدگی عروج پر تھی، جسے ختم کرنے کے لیے مصالحت کا عمل ضروری ہو گیا تھا، قبرستان، مساجد اور بالخصوص سامرا شہر میں دو مزاروں پر حملوں نے تیسری قوت کو مداخلت کا جواز فراہم کیا۔

اس وقت او آئی سی کے جنرل سیکرٹری اکمال الدین احسان اگلو نے ذاتی طور پر شیعہ اور سنی راہنماؤں کو مکہ مکرمہ میں دعوت دی جہاں 20 اکتوبر 2006 کو ’اعلان مکہ‘ پر دستخط ہوئے۔

یہ پیش رفت بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ ایران عراق جنگ کے خاتمے کے لیے او آئی سی کی طرف سے گنی کے صدر سیکو طورے کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی گئی اس میں صدر ضیا الحق بھی شامل تھے، لیکن یہ کمیٹی کامیاب نہ ہو سکی۔

Advertisement

دوسری جانب ہمسایہ ملک ایتھوپیا نے صومالیہ پر 2006 میں حملہ کر دیا، اس کے بعد او آئی سی نے امن کوششوں کا دوبارہ آغاز کیا جو بالآخر اگست 2008 کو ’جبوتی امن معاہدے‘ پر منتج ہوئیں۔

او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کا اجلاس:

سال میں ایک مرتبہ فیصلوں پر عملدرآمد کی صورتحال اور غور کے لیے وزرائے خارجہ کا اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔

طالبان کے افغانستان میں برسر اقتدار آنے کے بعد ملک کی تشویشناک صورتحال اور سنگین انسانی بحران کے خدشے کے باعث پاکستان کی کوششوں سے سعودی عرب کی دعوت پر او آئی سی وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس 19 دسمبر 2021 کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہوا تھا اور اب تین ماہ کے قلیل عرصے میں یہ اجلاس دوبارہ پاکستان میں منعقد ہوا۔

اوآئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے دو روزہ اجلاس میں کیا کیا ہوگا؟

آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کا 48واں اجلاس آج اسلام آباد میں شروع ہوگیا ہے۔

Advertisement

 گزشتہ ہفتے میں 57مسلم ممالک کی یہ عالمگیر تنظیم اقوام متحدہ سے  ’انسداد اسلامو فوبیا‘  کو ایک سنجیدہ فوری توجہ طلب عالمی ایجنڈا اور امن عالم کا لازمہ تسلیم کرانے میں کامیاب ہوئی۔

اب ایک ہفتے بعد ہی جنرل اسمبلی میں متذکرہ قرارداد کے محرک پاکستان کو معاون او آئی سی کی کانفرنس کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہوا۔

  44رکن ممالک کے وزرائے خارجہ اور باقی ممالک کے اعلیٰ عہدیدار اسلام آباد میں پاکستان کے مہمان بنے ہیں۔

او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس کے افتتاحی اور اختتامی سیشن اوپن ہوں گے، ورکنگ گروپس کے بند کمرہ اجلاس ہوں گے جس میں قراردادوں کا جائزہ لیا جائے گا۔

 اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی پُرزور مذمت کی جائے گی۔

 اجلاس میں افغانستان میں انسانی بحران کی صورتحال بھی زیر غور آئے گی۔

Advertisement

اجلاس میں کشمیر، فلسطین، اسلامو فوبیا، اُمّہ کے اتحاد سمیت 140 قراردادیں پیش ہونگی، یمن، سوڈان، لیبیا اور شام کی صورتحال بھی زیر بحث آئے گی۔

اس اجلاس میں عالمی سطح پر دہشتگردی اور تنازعات کا حل کانفرنس کے ایجنڈے میں سرفہرست ہے۔

او آئی سی وزرائے خارجہ اور دیگر کو 23 مارچ کی یوم پاکستان پریڈ بھی دکھائی جائے گی۔

اجلاس کے اختتام پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور سیکریٹری جنرل او آئی سی حسین براہیم طحہ مشترکہ نیوز کانفرنس کریں گے۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
روس نے شہریت کی درخواست کیلئے با حجاب تصویر کی اجازت دے دی
اچانک دو روزہ تعطیل کا اعلان کردیا گیا
رفح آپریشن سے متعلق ہمیں خدشات ہیں، امریکی محکمہ خارجہ
یو اے ای میں بارشوں کی پیشگوئی، تعلیمی ادارے بند کردیے گئے
متحدہ عرب امارات، محکمہ موسمیات نے ایک اور خطرے کی گھنٹی بجا دی
بڑا استعفیٰ آگیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر