Site icon بول نیوز

موسمیاتی کے تباہ کن اثرات، جنوب مشرقی ایشیا میں سیلاب سے 1250 سے زائد اموات

موسمیاتی کے تباہ کن اثرات، جنوب مشرقی ایشیا میں سیلاب سے 1250 سے زائد اموات

 طوفانی بارشوں، سمندری طوفانوں اور لینڈسلائیڈز نے جنوب مشرقی ایشیا میں تباہی مچادی، ماہرین کے مطابق یہ موسمیاتی تبدیلی کا براہِ راست نتیجہ ہے۔

عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا میں گزشتہ دنوں آنے والے شدید طوفانی بارشوں، سائیکلونز اور لینڈ سلائیڈز کے باعث انڈونیشیا، سری لنکا اور تھائی لینڈ میں کم از کم 1250 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ سیکڑوں اب بھی لاپتا ہیں۔

مزید پڑھیں: موسمیاتی تبدیلی: ملکی ارلی وارننگ سسٹم بوسیدہ، گراؤنڈ واٹر خطرناک حد تک کم

متعدد مقامات پر بستیاں مٹی تلے دفن ہوگئیں اور بحالی کے کام ہفتوں تک جاری رہنے کا امکان ہے۔

طوفان، بارشیں اور لینڈ سلائیڈز، تباہی کی بنیادی وجوہات

ماہرین کے مطابق ٹائیفون کوٹو، سائیکلون سینیار اور سائیکلون ڈِتوَاہ نے خطے میں بارشوں کی شدت کو کئی گنا بڑھایا، جس کے نتیجے میں فلپائن، انڈونیشیا اور سری لنکا میں اچانک سیلاب اور بڑے پیمانے پر لینڈسلائیڈز ہوئیں۔

آسٹریلوی ماہر ماحولیات پروفیسر اسٹیو ٹرٹن کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں اب ٹراپیکل طوفان ’’ماضی سے کہیں زیادہ بارش‘‘ لا رہے ہیں، جو واضح طور پر موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔

بھارتی موسمیاتی ادارے کے سائنس دان رکسی میتھیو کول کے مطابق گرم سمندر اور گرم فضا نمی کو زیادہ دیر تک روکے رکھتی ہے اور پھر اسے انتہائی شدید بارش کی صورت میں گراتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لا نینا موسمیاتی پیٹرن نے بھی پورے ایشیا میں بارشیں بڑھانے میں کردار ادا کیا۔

انڈونیشیا کے ماہرین نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ مقامی عوامل، خصوصاً غیر قانونی جنگلات کی کٹائی اور تیز رفتار لینڈ یوز تبدیلیاں، بارشوں کے نقصان کو کئی گنا بڑھا دیتی ہیں کیونکہ زمین پانی جذب کرنے کی صلاحیت کھو دیتی ہے۔

مزید پڑھیں: موسمیاتی تبدیلیاں:کوپ 28  کے اہداف کیلیے موثر اقدامات نہ کیے جانے کا انکشاف

انسانی بحران، پاکستان، سری لنکا، انڈونیشیا شدید متاثر

سری لنکا نے ایمرجنسی نافذ کر دی ہے جہاں 11 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔

انڈونیشیا کے صوبہ شمالی سوماترا میں ہر طرف لینڈسلائیڈز کے بڑے بڑے ٹکڑے پھیلے ہوئے ہیں جہاں رپورٹرز کے مطابق ’’کوئی بھی گاؤں اس تباہی سے محفوظ نہیں رہا‘‘۔

ماہرین: اب ذمہ داری طے کرنے کا وقت ہے

عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ عشروں کی وارننگ کے باوجود حکومتیں ’’انتہائی کم تیاری‘‘ کے ساتھ اس بحران میں داخل ہوئیں اور اس کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔

کلائمیٹ ایکٹوسٹ ہرجیت سنگھ کے مطابق اب دنیا کو محض ’’واقعات کا تجزیہ‘‘ نہیں بلکہ کلائمیٹ انصاف کی طرف بڑھنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ وہ ممالک جو فوسل فیول جلا کر امیر ہوئے، ان پر قانونی اور اخلاقی طور پر لازم ہے کہ وہ متاثرہ ملکوں کو گرانٹ کی بنیاد پر فنڈنگ فراہم کریں، نہ کہ قرضوں کی صورت میں۔

عالمی عدالت کا اہم فیصلہ

اس سال عالمی عدالت انصاف (ICJ) نے واضح کیا تھا کہ اگر کوئی ملک موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں ناکام رہتا ہے تو یہ ’’بین الاقوامی طور پر قابلِ مواخذہ عمل‘‘ تصور ہوسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریاں؛ ملک میں پہلا ماحول دوست اربن رہزیلنٹ فریم ورک تیار

عدالت کا موقف ہے کہ ریاستوں کو کمزور آبادیوں کی حفاظت کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔

تیاری کی کمی نے نقصان بڑھایا

ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ نے کہا ہے کہ ایشیا میں حالیہ سیلاب اس بات کا ’’سخت ترین ثبوت‘‘ ہیں کہ موسمیاتی آفات اب معمول بنتی جا رہی ہیں، اور ممالک کو مزید مضبوط قانونی و حفاظتی ڈھانچوں کی ضرورت ہے۔

موسمیاتی بحران کی قیمت عوام چکا رہے ہیں

ایشیا کی یہ بدترین تباہی اس حقیقت کو مزید واضح کرتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اب مستقبل نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی، مہنگی اور جان لیوا حقیقت ہے، اور اگر دنیا نے فوری اقدامات نہ کیے تو یہ آفات مزید شدت اختیار کرتی جائیں گی۔

 

Exit mobile version