بھارت میں تاریخ کا جعلی ڈگریوں اور جعلی سرٹیفکیٹس کا ملک گیر نیٹ ورک بے نقاب ہوگیا۔
کیرالا پولیس نے انکشاف کیا ہے کہ ایک منظم گروہ گزشتہ کئی برسوں سے مختلف ریاستوں میں 10 لاکھ سے زائد افراد کو جعلی ڈگریاں اور غیر ملکی اسناد فراہم کرتا رہا، جس سے ملک کا تعلیمی نظام سنگین بحران کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔
11 ملزمان گرفتار، سرغنہ دھنیش دوبارہ سرگرم
بھارتی میڈیا کے مطابق کیرالا سمیت مختلف ریاستوں سے 11 ایجنٹس کی گرفتاری کے بعد اس اسکینڈل کا پردہ فاش ہوا۔
گینگ کے سرغنہ دھنیش عرف ڈینی کو پولیس نے پہلی بار 2013 میں جعلی اسناد فروخت کرنے کے الزام میں پکڑا تھا لیکن سزا مکمل کرنے کے بعد اس نے پورے ملک میں نیا، مزید مضبوط نیٹ ورک قائم کرلیا۔
خفیہ پرنٹنگ پریس سے فیک یونیورسٹی کی فیکٹری تک
پولیس کے مطابق دھنیش نے پولّچی میں ایک خفیہ پرنٹنگ پریس قائم کی تھی، جہاں معروف یونیورسٹیوں کے جعلی سرٹیفکیٹس، جعلی دستخط، ہولوگرام اور اسٹیمپ تیار کیے جاتے تھے۔
تیار شدہ اسناد پہلے بنگلور بھیجی جاتیں، جہاں سے انہیں کیرالا، تامل ناڈو، کرناٹک، آندھرا پردیش، مہاراشٹر، گوا، دہلی اور مغربی بنگال میں موجود ایجنٹس کے ذریعے فروخت کیا جاتا تھا۔
ایک لاکھ جعلی ڈگریاں برآمد، 22 یونیورسٹیوں کے نام استعمال
چھاپوں کے دوران پولیس نے سیکڑوں پرنٹرز، کمپیوٹرز، جعلی یونیورسٹی مہریں اور تقریباً ایک لاکھ مکمل تیار جعلی سرٹیفکیٹس برآمد کیے۔
برآمد کیے گئے سرٹیفکیٹس کم از کم 22 مختلف یونیورسٹیوں کے نام پر بنائے گئے تھے اور فی سرٹیفکیٹ کی قیمت 75 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ روپے تھی۔
پولیس کے مطابق ہر جعلی ڈگری 75 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ روپے میں فروخت کی جاتی تھی۔ اندازے کے مطابق دھنیش نے گزشتہ سالوں میں اربوں روپے کمائے۔
اس پیسے سے اس نے ملپّرم میں لگژری گھر، دو فائیو اسٹار بارز، پونے میں قیمتی اپارٹمنٹس اور مشرق وسطیٰ میں سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔
فرار کی کوشش ناکام، ائیرپورٹ سے گرفتار
پولیس کے مطابق دھنیش کو اُس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اپنے اہلخانہ کے ہمراہ کالی کٹ ائیرپورٹ سے بیرونِ ملک فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔
بھارتی تعلیم نظام پر سوالات کی بوچھاڑ
ملک گیر جعلی ڈگری اسکینڈل نے بھارتی تعلیمی اداروں، بھرتی نظام، سرکاری محکموں اور بیرونِ ملک کام کرنے والے بھارتی شہریوں کی اسناد پر بھی کئی سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ تحقیقات مزید وسیع کی جا رہی ہیں اور امکان ہے کہ اس نیٹ ورک کے کئی اہم راستے ابھی باقی ہیں۔

















