Site icon بول نیوز

افغان سرزمین سے ٹی ٹی پی کے پاکستان پر دہشت گرد حملے بدستور جاری ہیں، امریکی جریدہ

افغان سرزمین سے ٹی ٹی پی کے پاکستان پر دہشت گرد حملے بدستور جاری ہیں، امریکی جریدہ

فوٹو: بی بی سی

 امریکی جریدے دی ڈپلومیٹ نے اپنی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ افغانستان میں موجود تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی قیادت کی ہدایت پر پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات مسلسل جاری ہیں، جس نے دونوں ممالک کے تعلقات کو سنگین حد تک نقصان پہنچایا ہے۔

رپورٹ کے مطابق افغان سرزمین سے ٹی ٹی پی کے منظم حملوں نے اسلام آباد اور کابل کے درمیان سفارتی فاصلہ مزید بڑھا دیا ہے۔

تجزیہ کے مطابق طالبان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کی سیاسی خواہش اور عملی صلاحیت، دونوں سے محروم دکھائی دیتی ہے، جس کے باعث سرحد پار حملوں میں کمی نہیں آئی۔

دی ڈپلومیٹ لکھتا ہے کہ طالبان قیادت اپنے روایتی مسلح اتحادیوں پر انحصار کے باعث ٹی ٹی پی اور دیگر شدت پسند گروہوں کے خلاف سخت اقدامات سے گریزاں ہے۔

طالبان کے نزدیک یہ گروہ اندرونی اختلافات کو محدود رکھنے اور مخالف دھڑوں پر دباؤ برقرار رکھنے کے لیے اہم ہیں، اسی لیے ان کے خلاف کوئی جامع کارروائی عمل میں نہیں لائی جا رہی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ افغانستان میں داعش خراسان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں طالبان حکومت کے لیے بڑے سکیورٹی چیلنج کے طور پر سامنے آئی ہیں۔

طالبان کو یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ ٹی ٹی پی یا دیگر شدت پسند گروہوں کے خلاف جارحانہ پالیسی اپنائی گئی تو ان کے متعدد کارکنان داعش خراسان میں شامل ہو سکتے ہیں۔

دی ڈپلومیٹ کے مطابق طالبان امیر ہیبت اللہ آخندزادہ سخت گیر نظریاتی پالیسی کے تحت تحریکِ طالبان افغانستان کو متحد رکھنا چاہتے ہیں، جس کے باعث اعتدال پسند یا اصلاحاتی اقدامات مزید مشکل ہوگئے ہیں۔

رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ طالبان خطے کے ممالک پر سفارتی اور تجارتی دباؤ برقرار رکھنے کے لیے مختلف مسلح گروہوں کو بطور لیوریج استعمال کر رہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت، طالبان کے لیے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کا ایک مؤثر آپشن سمجھا جا رہا ہے، جبکہ نئی دہلی کو خدشہ ہے کہ سی پیک کی افغانستان تک ممکنہ توسیع اس کی وسطی ایشیا تک رسائی کو محدود کردے گی۔

دی ڈپلومیٹ کے مطابق طالبان حکومت کی جانب سے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسے گروہوں کو پناہ دینا پاک–افغان تعلقات کو نہایت پیچیدہ بنا رہا ہے۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کے لیے ٹی ٹی پی سے مکمل لاتعلقی اختیار کرنا مشکل ہے، لیکن پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا واحد راستہ یہی فیصلہ ہے۔

رپورٹ نے ایک بار پھر اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ اگر طالبان نے شدت پسند گروہوں کے خلاف جامع حکمتِ عملی اختیار نہ کی تو خطے میں عدم استحکام مزید بڑھ سکتا ہے۔

Exit mobile version