بینکاک: تھائی لینڈ نے کمبوڈیا کے ساتھ متنازع سرحد پر لڑائی جاری رکھنے کا اعلان کردیا، حالانکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ بندی کرانے کا دعویٰ کیا تھا۔
تھائی وزیرِاعظم انوتن چرنویراکول نے فیس بک پر واضح کیا کہ ملک اس وقت تک فوجی کارروائیاں جاری رکھے گا جب تک سرزمین اور عوام کو لاحق تمام خطرات ختم نہیں ہوجاتے۔
مزید پڑھیں: ملائیشیا کی ثالثی میں تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان جنگ بندی کا اعلان
ان کا کہنا تھا کہ ہفتے کی صبح ہونے والے حملے خود اس بات کا ثبوت ہیں کہ کسی قسم کی جنگ بندی موجود نہیں۔
صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے جمعے کے روز تھائی وزیرِاعظم اور کمبوڈین وزیراعظم ہن مانیت سے بات کرکے فائر بندی پر اتفاق کرا دیا ہے۔
تاہم دونوں رہنماؤں نے بعد ازاں اپنے بیانات میں کسی جنگ بندی کا ذکر نہیں کیا۔ انوتن نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ کوئی سیزفائر نہیں ہوا۔
ادھر کمبوڈین وزیراعظم ہن مانیت نے کہا ہے کہ ان کا ملک اکتوبر میں طے پانے والے معاہدے کے مطابق پرامن حل کا خواہاں ہے۔
واضح رہے کہ پیر سے دونوں ممالک کے درمیان 817 کلومیٹر طویل سرحد پر شدید جھڑپیں جاری ہیں، جہاں بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ حالیہ برسوں کی شدید ترین لڑائی قرار دی جارہی ہے۔
تھائی وزارتِ دفاع کے ترجمان کے مطابق سات سرحدی صوبوں میں جھڑپیں ہوئیں اور کمبوڈیا کی جانب سے بھاری ہتھیار استعمال کیے گئے، جس کے جواب میں تھائی افواج نے جوابی کارروائی کی۔
مزید پڑھیں: تھائی لینڈ میں تباہ کن بارشیں؛ 300 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا، 33 افراد ہلاک
کمبوڈیا کی وزارتِ اطلاعات نے الزام لگایا کہ تھائی افواج نے پلوں اور عمارتوں کو نشانہ بنایا اور بحری جہاز سے توپ خانے کی فائرنگ کی گئی۔
تھائی قیادت نے ٹرمپ کے اس مؤقف کو بھی مسترد کردیا کہ بارودی سرنگ کا واقعہ حادثاتی تھا، جبکہ کمبوڈیا نے بارودی سرنگیں بچھانے کے الزامات کو یکسر رد کردیا ہے۔
کمبوڈین وزیراعظم نے امریکا اور ملائیشیا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی انٹیلی جنس صلاحیتوں کے ذریعے یہ جانچ کریں کہ تازہ جھڑپوں میں پہلا فائر کس نے کیا۔


















