بنگلا دیش کی طلبہ تنظیم انقلاب منچا کے ترجمان شریف عثمان ہادی کے قاتلانہ حملے میں انتقال کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق دارالحکومت ڈھاکا سمیت کئی شہروں میں صورتحال کشیدہ ہو گئی ہے، مشتعل مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے، جہاں بعض مقامات پر عوامی لیگ اور چند میڈیا اداروں کے دفاتر کو نذرِ آتش کیے جانے اور توڑ پھوڑ کی اطلاعات موصول ہوئیں۔
احتجاج کے دوران اہم شاہراہیں بند رہیں جبکہ بعض علاقوں میں مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔
مظاہرین نے شریف عثمان ہادی کے حق میں نعرے لگائے اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا اور مطالبہ کیا کہ حملے میں ملوث افراد کو فوری طور پر انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
راجشاہی میں مظاہرین کی جانب سے بانیِ بنگلا دیش شیخ مجیب الرحمان کی رہائش گاہ کو آگ لگانے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں، جس کے بعد حکام نے مختلف علاقوں میں سیکیورٹی مزید سخت کردی ہے۔
شریف عثمان ہادی گزشتہ جمعے کو ڈھاکا میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے شدید زخمی ہو گئے تھے۔ انہیں فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا، بعد ازاں مزید علاج کے لیے سنگاپور لے جایا گیا، جہاں وہ دورانِ علاج انتقال کر گئے۔
بنگلا دیشی حکام کے مطابق حملے میں ملوث ایک مشتبہ شخص کی شناخت فیصل کریم مسعود کے نام سے کی گئی ہے جبکہ موٹر سائیکل چلانے والے کی شناخت عالمگیر شیخ بتائی جا رہی ہے۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ دونوں مشتبہ افراد واقعے کے بعد ملک سے فرار ہوچکے ہیں، تاہم تحقیقات کا عمل جاری ہے۔
حکام نے عوام سے اپیل کی ہے کہ امن و امان برقرار رکھا جائے جبکہ واقعے کی مکمل تحقیقات کے بعد حقائق سامنے لانے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے۔


















