لندن: افغان طالبان ریجیم کے 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان خواتین کے لیے ایک غیر محفوظ اور بدترین ملک بن چکا ہے۔
بین الاقوامی جریدے دی گارڈین کی تفصیلی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغان طالبان کے 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان خواتین کے لیے ایک غیر محفوظ ملک بن چکا ہے، جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بدترین سلسلہ جاری ہے۔
رپورٹ کے مطابق عینی شواہد اور متاثرہ خواتین کے بیانات طالبان رجیم کے اس دعوے کو جھٹلاتے ہیں کہ وہ خواتین کے حقوق کا “احترام” کرتے ہیں۔
جنوری 2022 میں زرمنہ اور دیگر خواتین نے طالبان کی بڑھتی پابندیوں کے خلاف کابل کی سڑکوں پر پرامن احتجاج کیا، جس کے بعد انہیں شدید دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
دی گارڈین کے مطابق احتجاج کے بعد طالبان کے حامیوں نے زرمنہ کے گھر پر دھاوا بولا اور انہیں طویل عرصے تک حراست میں رکھا گیا۔
رہائی کے بعد زرمنہ کو واضح دھمکیاں دی گئیں کہ دوبارہ آواز اٹھانے کی صورت میں سنگین نتائج ہوں گے۔
زرمنہ کے بقول، وہ اور دیگر خواتین صرف اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کر رہی تھیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زرمنہ برقعہ پہن کر افغانستان سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئیں اور اس وقت جرمنی میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں، تاہم وہ اب بھی خود کو اور اپنے خاندان کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں۔
عالمی سطح پر پیپلز ٹریبونل فار ویمن آف افغانستان کی رپورٹ کے مطابق متعدد افغان لڑکیاں غربت اور جبر کے باعث جبری شادیوں یا جنسی استحصال پر مجبور ہو رہی ہیں، جو ملک میں بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کی علامت ہے۔
ماہرین کے مطابق طالبان کے اقتدار میں آتے ہی خواتین اور لڑکیوں کی زندگی میں آنے والی معمولی بہتری بھی راتوں رات ختم ہو گئی، جبکہ ابتدا میں پرامن اور غیر منظم خواتین احتجاجی تحریک کو طاقت کے زور پر کچل دیا گیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دی گارڈین کی یہ رپورٹ محض ایک خاندان کی کہانی نہیں بلکہ طالبان رجیم کے تحت افغانستان کی مجموعی ابتر صورتحال کی عکاسی کرتی ہے، جہاں خواتین کی آواز دبانا، پرامن احتجاج کو جرم قرار دینا اور خوف کے ذریعے معاشرے کو خاموش کرانا معمول بن چکا ہے۔
رپورٹ عالمی برادری کے لیے ایک واضح انتباہ قرار دی جا رہی ہے کہ زمینی حقائق طالبان کے دعوؤں کے برعکس ایک سنگین انسانی حقوق کے بحران کی نشاندہی کرتے ہیں۔



















