واشنگٹن: چین میں غیر معمولی طلب کے باعث این ویڈیا اپنی جدید H200 AI چِپس کی پیداوار بڑھانے پر غور کر رہی ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق کمپنی نے چینی کلائنٹس کو بتایا ہے کہ وہ موجودہ پیداوار کو بڑھانے کے لیے اپنی پیداواری صلاحیت بڑھانے پر غور کر رہی ہے، کیونکہ آرڈرز اس وقت کی پیداوار سے کہیں زیادہ ہیں۔
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ حکومت این ویڈیا کو H200 پروسیسرز چین کو برآمد کرنے کی اجازت دے گی، جس پر 25 فیصد فیس عائد ہوگی۔
مزید پڑھیں: امریکہ یا چین، اےآئی میں صرف ایک ہی فاتح ہوگا، امریکی صدر
چین کی بڑی کمپنیوں، بشمول Alibaba اور ByteDance نے H200 خریدنے کے لیے اس ہفتے کمپنی سے رابطہ کیا اور بڑے آرڈرز دینے کی خواہش ظاہر کی، تاہم چینی حکومت نے ابھی تک کسی خریداری کو منظور نہیں کیا۔
این ویڈیا کے ایک ترجمان نے کہا کہ چین میں مجاز صارفین کو H200 فروخت کرنے کے لیے سپلائی چین کا انتظام کیا جا رہا ہے تاکہ امریکی صارفین کی سپلائی پر کوئی اثر نہ پڑے۔
H200 کی خصوصیات اور پیداوار:
H200، این ویڈیا کی پچھلی Hopper نسل کا سب سے تیز AI چِپ ہے اور تائیوانی کمپنی TSMC کے 4nm پروسیس پر تیار کی جاتی ہے۔
یہ موجودہ مارکیٹ میں چینی کمپنیوں کے لیے دستیاب سب سے طاقتور چِپ ہے، اور H20 چِپ سے تقریباً چھ گنا زیادہ طاقتور ہے، جو 2023 میں چینی مارکیٹ کے لیے کمزور ورژن کے طور پر جاری کی گئی تھی۔
چینی کلاؤڈ سروس پرووائیڈرز اور کاروباری صارفین بڑے آرڈرز دینے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں، کیونکہ مقامی چِپ پیداوار کی صلاحیت H200 کی طلب پوری کرنے سے کم ہے۔
مزید پڑھیں: بوائے فرینڈ کی اہلیہ سے چھپنے کیلئے چینی خاتون بالکونی سے لٹک گئی، ویڈیووائرل
چینی حکام نے ایمرجنسی میٹنگز میں H200 کی درآمد پر غور کیا اور تجویز پیش کی کہ ہر H200 خریداری کے ساتھ مقررہ تناسب میں ملکی چِپس شامل ہوں۔
این ویڈیا کے لیے پیداوار بڑھانا بھی ایک چیلنج ہے کیونکہ کمپنی نہ صرف Rubin لائن میں منتقلی کر رہی ہے بلکہ Alphabet/Google سمیت دیگر کمپنیوں کے ساتھ TSMC کی محدود اعلیٰ درجے کی چِپ بنانے کی صلاحیت کے لیے مقابلہ بھی کر رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چین میں H200 کی زبردست طلب نے این ویڈیا کو پیداوار بڑھانے پر مجبور کر دیا ہے، لیکن امریکی پابندیاں، مقامی پیداوار کی کمی اور سپلائی چین کے چیلنجز اس فیصلے کو پیچیدہ بنا رہے ہیں۔
















