
آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ بورڈ نے گزشتہ 15 سالوں میں کھلاڑیوں پر اپنی طاقت کو کیسے یقینی بنایا
پاکستان کرکٹ ایک بار پھر ملک کی طرح دلچسپ مرحلے سے گزر رہی ہے۔ میڈیا میں گردش کرنے والی خبروں کے ساتھ کافی غیر یقینی صورتحال ہے، 12 جنوری کو ای ایس پی این کرک انفو کے ذرائع پر مبنی خبر میں عمر فاروق کالسن نے لکھا کہ نئی انتظامیہ نے پہلے ہی فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ ’اسٹیٹس کو‘ کو چیلنج کریں گے۔
’اسٹیٹس کو‘ کو چیلنج کرنے کی اصطلاح سے رپورٹ میں جو کچھ تجویز کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ نئی انتظامیہ نے پہلے ہی تمام فارمیٹس کے لیے تین مختلف کپتانوں کا تقرر کرکے پاکستان کے سب سے طاقتور کپتان بابر اعظم کے فیصلہ سازی کے اختیارات کو کم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
کیا ہو رہا ہے؟
جب سے رمیز راجہ کی بے وقت رخصتی کے بعد نئی انتظامیہ نے پی سی بی کے معاملات سنبھالے ہیں، بابر اور موجودہ انتظامیہ کے لیے حالات خراب نظر آنے لگے ہیں۔
میڈیا میں ’معتبر ذرائع‘ کے حوالے سے مسلسل خبریں آتی رہی ہیں کہ کراچی کنگز کے سابق کپتان کی جانب سے ٹیم کے قائد کی حیثیت سے اپنی جگہ کھونے کا امکان ہے اور ان رپورٹوں میں شان مسعود کی نیوزی لینڈ کے خلاف تین میچوں کی سیریز کے لیے ون ڈے ٹیم بطور نائب کپتان شمولیت کے بعد ہی شدت آئی۔
مزید برآں، میڈیا کے ایک مخصوص طبقے کی طرف سے مسلسل قیاس آرائیاں کی جاتی رہی ہیں جو میڈیا ٹاک کے دوران بابر کے سامنے بار بار مخالفانہ سوالات کر رہے ہیں۔
یہ کیوں ہو رہا ہے؟
تاریخی طور پر پی سی بی کو اسٹار کرکٹرز کے اختیارات کم کرنے کی بری عادت رہی ہے۔ ماضی میں اعلیٰ افسران اس وقت ناخوش نظر آئے جب کھلاڑی اتنے طاقتور ہو گئے کہ فیصلہ سازی کے مختلف مراحل میں ان کے اختیار کو چیلنج کر سکیں۔
آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ پی سی بی نے گزشتہ 15 سالوں میں کھلاڑیوں پر اپنی طاقت کو کیسے یقینی بنایا۔
شعیب ملک کی رخصتی
پی سی بی نے 2007ء میں ایک نوجوان آل راؤنڈر شعیب ملک کو کپتان مقرر کیا۔ انہوں نے انضمام الحق کی جگہ لی جو پاکستان کے آئی سی سی ورلڈ کپ 2007ء سے باہر ہونے کے بعد ریٹائر ہو گئے تھے۔
2007ء کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل تک رسائی کے سبب آل راؤنڈر طاقتور بن گئے، جو کہ اس فارمیٹ کا پہلا ورلڈکپ تھا جس میں انہیں بھارت کے خلاف شکست ہوئی تھی۔
تاہم، یہ کارکردگی سیالکوٹ اسٹالینز کے سابق کپتان کے کام نہیں آئی کیونکہ قومی ٹیم کے اپنے ہی گھر میں ون ڈے سیریز ہارنے کے بعد انہیں برطرف کردیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق شعیب ملک کو ٹیم کے اندر گروپ بندی کی وجہ سے تبدیل کیا گیا جس میں کچھ سینئر کھلاڑی شامل تھے۔
یونس کے خلاف بغاوت
شعیب ملک کی جگہ یونس خان کو کپتان بنایا گیا۔ تاہم، دائیں ہاتھ کے ایک اسٹائلش بلے باز جو میدان میں ہمیشہ ایک مسکراہٹ کے ساتھ نظر آتے تھے، ٹیم کے لیے اچھا شگون ثابت ہوئے۔
یونس نے ٹیم کے انتخاب کے حوالے سے بورڈ کو چیلنج کیا اور ٹیم کو آج تک کا واحد ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ٹائٹل دلانے کے باوجود انہیں اس عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹیم منیجر یونس کے خلاف گروپ بندی میں ملوث تھے۔
سرفراز کی بے وقت رخصتی
سرفراز احمد کو اس وقت ٹیم کا کپتان مقرر کیا گیا تھا جب پاکستان آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2017ء کے لیے کوالیفائی کرنے میں ناکامی کے دہانے پر تھا اور آئی سی سی ورلڈ کپ 2019ء کے لیے براہ راست کوالیفائی کرنے سے محروم ہونے کا خطرہ تھا۔
ان کی قیادت میں نہ صرف ٹیم نے ایونٹ کے لیے کوالیفائی کیا بلکہ مین اِن گرین نے فائنل میں روایتی حریف بھارت کو 180 رنز کے بڑے مارجن سے شکست دے کر چیمپئنز ٹرافی اپنے نام کی۔
کراچی میں پیدا ہونے والے سرفراز نے نہ صرف کھلاڑیوں کو ون ڈے میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی ترغیب دی بلکہ دو سال ٹی ٹوئنٹی میچوں میں فتوحات کا سلسلہ جاری رکھ کر، ٹیم کو دنیا کی سرفہرست ٹیم بنایا اور ایک طاقتور کپتان کے طور پر اپنی پوزیشن کو مستحکم کیا۔
تاہم، آنے والے سالوں میں ان کی اپنی کارکردگی میں کمی آئی اور اپنے ہی گھر میں سری لنکا کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں وائٹ واش ہونے کے بعد انہیں کپتانی سے ہٹا دیا گیا۔
انہیں نہ صرف برطرف کیا گیا بلکہ انہیں تمام فارمیٹس سے بھی باہر کردیا گیا اور ان کی جگہ محمد رضوان کو ٹیم میں شامل کیا گیا۔
پی سی بی کیا حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟
پی سی بی نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران جان بوجھ کر کھلاڑیوں کے اختیارات کو کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ ملک میں کرکٹ کے معاملات سے نمٹنے کے حوالے سے سب سے زیادہ بااثر رہیں۔
جب بابر کو کپتان مقرر کیا گیا تو شاید حکام کو یہ احساس نہیں تھا کہ دائیں ہاتھ کا یہ کھلاڑی تیزی سے قوم کے دل کی دھڑکن بن رہا ہے اور دنیا کا بہترین کھلاڑی بن کر ابھر رہا ہے۔
لگتا ہے کہ اب اسی طرح کی مشقیں جاری ہیں۔ یہ مشق اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ بابر جو کہ بلاشبہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستان کرکٹ کے سب سے بڑے اسٹار ہیں، کو کپتان برقرار رکھا جائے۔
یہ مشق یا تو بابر کو بطور کپتان کمزور کر دے گی یا پھر بورڈ کو کمزور بنیادوں پر ایک نیا کپتان ملے گا کیونکہ کوئی بھی ہو وہ بابر جتنا بڑا کھلاڑی نہیں ہو گا جو کہ بورڈ کے لیے ایک مثالی صورتحال ہوگی۔
یہی وجہ ہے کہ شان مسعود اب اس آمیزے میں ہیں جو کہ کم از کم کہنے کے لیے حیران کن ہے۔ اس کی موجودگی صرف بورڈ کی فیصلہ سازی کی صلاحیتوں کو تقویت دے گی کیونکہ اس کی پلیئنگ الیون میں جگہ کی ضمانت نہیں ہے۔
مسئلہ صرف یہ ہے کہ اس طرح کی سیاسی چالوں سے صرف پاکستان کرکٹ کو ہی نقصان ہوگا اور کسی کو نہیں کیونکہ غیر یقینی کے سائے میں کوئی ترقی نہیں ہوئی، جو ہم پہلے ہی ایک ملک کے طور پر دیکھ چکے ہیں اور کھیل بھی اس سے مختلف نہیں ہیں۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News