Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

میلاد ٹاور اور ایرانی تہذیب

Now Reading:

میلاد ٹاور اور ایرانی تہذیب

ہوٹل پارک وے سے میلاد ٹاور کا فاصلہ لگ بھگ 10 کلومیٹر ہے مگر ہم نیند کی مار کھائے مسافروں کیلئے یہ فاصلہ جھپکی لینے کیلئے کافی ثابت ہوا۔ ہم ایئرپورٹ سے آتے ہی سو تو گئے تھے مگر جب نیند پوری نہ ہوئی ہو تو گاڑی کے سفر میں بیٹھے بیٹھے سو جانے کی اپنی ہی آسودگی ہوتی ہے۔ سفر میں میری نیند کے دورانیئے منٹوں کے ہوتے ہیں۔ اس مختصر فاصلے میں بھی کئی جھپکیاں لے لی گئیں اور ہر جھپکی کے بعد تازگی کا احساس اورباہر جھانک کر پھر ایک اور جھپکی۔ایک جھپکی اوپل شاپنگ سنٹر تک، دوسری جھپکی عطیہ اسپتال تک، ایک اور جھپکی البلاغہ پارک تک، یوں جھپکی جھپکی لیتے ہم میلاد ٹاور پہنچے۔
میرے آخری بار تہران آنے پر میلاد ٹاور مکمل نہیں ہوا تھا، اس لئے اس ٹاور کے بارے میں میری کوئی یاد نہیں تھی۔ اب آپ تہران میں کہیں بھی کھڑے ہوں آپ کو ہر سمت سے میلاد ٹاور نظر آتا ہے۔ جب ساٹھ سال پہلے میں اپنے گاؤں سے کراچی آیا تھا تو غالباً اس وقت حبیب بینک پلازہ کی عمارت مکمل نہیں ہوئی تھی، البتہ جب چند سال بعد ہمارا خاندان مستقل کراچی منتقل ہوا تو حبیب بینک پلازہ کی عمارت اور قائداعظم کا مقبرہ کراچی کے کسی بھی علاقے سے صاف نظر آجاتا تھا۔
ہم میلاد ٹاور کے قریب پہنچے۔ یہ ٹاور مجموعی طور پر 16 لاکھ 60 ہزار مربع فٹ رقبہ پر بنا ہواہے۔ یہ دنیا کے دیگر بڑے مواصلاتی ٹاورز کی طرح گول طرز پر بنا ہوا ہے۔ میں نے برلن کا مواصلاتی ٹاور، دبئی کا برج الخلیفہ، پیرس کا ایفل ٹاور دیکھے ہوئے ہیں مگر اب تہران کے میلاد ٹاور کو دیکھنے کا ایک نیا اور انوکھا تجربہ ہو رہا ہے۔ ہم نے سڑک پر گاڑی سے اُتر کر سامنے دیکھا تو پہلی نظر کیفے 435 پر پڑی۔ ہم اس ہندسے پر چونکے اور اس ہندسے کے اپنے ہندسے 420 سے تعلق پر غور کرنے لگے۔ ڈاکٹر قیصر عباس نے ہماری حیرت بھانپ کر سرائیکی میں ہمیں سمجھایا کہ میلاد ٹاور کی بلندی 435 میٹر ہے، اس لئے یہاں کیفے کا نام ٹاور کی بلندی کی مناسبت سے کیفے 435 رکھا گیا ہے۔ ہم آگے بڑھتے ہیں ۔ دائیں اور بائیں جانب شاپنگ ایریا ہے جہاں ایران کے خوبصورت قالین اور انتہائی دیدہ زیب پینٹنگز رکھی ہیں، جنہیں آپ ایک نظر دیکھ کر شادکام ہو جاتے ہیں۔ یہاں بچوں کی کشش کیلئے بڑا سامان موجود ہے۔ بالکل سامنے خودکار زینے نظر آتے ہیں، دائیں طرف کے زینے سے لوگ اوپر جارہے ہیں اور بائیں طرف والے زینے کو نیچے آنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ درمیان پیدل اوپر چڑھنے اور نیچے اُترنے کیلئے خوبصورت پختہ ٹائیلز کی سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔ ہم خودکاروں زینوں سے اوپر چڑھتے ہیں۔ لندن میں پکاڈلی ٹیوب کے پلیٹ فارم تک پہنچنے کیلئے اسی قدر طویل خودکار زینوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم اب ایک طویل دو رویہ راہداری پر آجاتے ہیں۔ جس کے دونوں جانب نیچے پانی کی نہریں بہتی نظر آتی ہیں۔ اور ہر جانب بہت وسیع رقبہ پر پختہ فرش، چھوٹے بڑے درخت، پودوں اور پھولوں کی باڑیں، بیٹھنے کیلئے بنچیں اور کچھ اوپر کی جانب تہران کے پہاڑوں کے سلسلے اور اُن کی چوٹیاں نظر آرہی ہیں جن پر میں سردیوں کے موسم میں چمکتی دمکتی برف دیکھ چکا ہوں۔ ہم راہداری سے ٹاور کی مرکزی عمارت کی طرف بڑھتے ہیں۔ اس راہداری کے اوپر بہت ہی خوبصورت قوسیں بنی ہوئی ہیں یوں لگتا ہے کہ ان قوسوں کو کسی ماہر تیرانداز نے تیر کی کمان سمجھ کر کھینچ کر نصف دائرے کی شکل دے دی ہو۔
ہم کھلی فضا کی راہداری سے ٹاور کے صحن میں آجاتے ہیں۔ میلاد ٹاور کی مرکزی عمارت کے نچلے حصے میں شاپنگ ایریاز، کانفرنس ہالز اور کاروباری دفاتر نظر آ رہے ہیں۔ سامنے اے ٹی ایم مشینوں جیسی مشینیں نظر آرہی ہیں۔ رضا شعبانی ایسی ہی ایک مشین کے سامنے جاکر کوئی اے ٹی ایم جیسا کارڈ نکال کر اسے استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ گویا انہوں نے ٹاور کی لفٹ سے 290 میٹر کی بلندی پر ہمیں اوپر لے جانے کیلئے ٹکٹ خرید لئے۔ اب مہمانداری اور مہان نوازی کا ایک نیا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔
ہم سب لوگ لفٹ میں سوار ہوتے ہیں، یہ لفٹ ایک سیکنڈ میں سات میٹر کا فاصلہ طے کرتی ہے۔ اس طرح ایک منٹ سے بھی پہلے لفٹ تقریباَ 41 سیکنڈ میں ہمیں 290 میٹر کے فاصلے پر ٹاور کی ایک بالائی منزل پر لے آتی ہے۔ جہاں سے آگے ٹاور کی باقی بلندی پر یہاں آنے والوں کی رسائی نہیں ہوتی۔ یہاں ہم ایک وسیع گول راہداری میں پہنچتے ہیں جہاں سُرخ رنگ کی قالین نے پوری راہداری کو ڈھانپ رکھا ہے۔ یہاں پر جگہ جگہ صوفے رکھے ہیں تاکہ یہاں آنے والے تھک جائیں تو کچھ دیر کیلئے سستا کر پھر سے اپنا شوقِ سیاحت پورا کریں۔ راہداری کے باہر شفاف شیشے لگے ہیں اور شیشوں کی دوسری طرف اسٹیل کے مضبوط جنگلے بنے ہیں جہاں سے کسی رکاوٹ کے بغیر چاروں طرف گھوم کر تہران کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں پر دور سے ہی کوہِ البرز، کوہِ خیلونو، کوہِ بُرج، کوہِ کامان، کوہِ دماوند، کوہِ توچل اور کوہ ہرزے کی چوٹیوں کے نظارے کئے جا سکتے ہیں۔ یہاں دور سے ہی ایران کے پرانے مہرآباد ایئرپورٹ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اتنی بلندی سے آزادی چوک کا منظر بہت خوبصورت لگتا ہے۔ ٹاور کے شمال مشرق کی طرف جا کر دیکھیں تو تہران کی بلندترین رہائشی عمارت بہت پست نظر آتی ہے۔ جنگلوں سے شہر کا منظر ایسے لگتا ہے جیسے آپ خلا میں چہل قدمی کر رہے ہوں۔ یہاں کئی مقامات پر دُوربینیں لگی ہیں جہاں سے بہت بلندی سے تہران کے طول وعرض کو بڑی تفصیل سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس راہداری کے جنوب میں ایک کاؤنٹر بنا ہوا ہے جہاں سے ٹکٹ لے کر ایڈونچر کئے جا سکتے ہیں، مثلاً ایک مقام پر تو آپ کھلی فضا میں جست لگا سکتے ہیں۔ ایک اور مقام پر خلا میں جھولا جھول سکتے ہیں۔ اسی طرح کی بعض دیگر مہم جوئیاں کی جا سکتی ہیں ، ہمارے نوجوان دوست مہم جوئی کیلئے ٹکٹ لے لیتے ہیں مگر ہم مہم جوئی اور طالع آزمائی کے کبھی حق میں نہیں رہے۔

Advertisement
ایک لاکھ 54 ہزار مربع میٹر رقبے پر پھیلے میلاد ٹاور کی تعمیر کا خیال سابق شاہ کے دور میں 1970ء کے عشرے میں آیا تھا مگر شاہ کے شاہ پسندوں کا یہ خواب خواب ہی رہا تھا۔ انقلابِ ایران کے 18 سال بعد میلاد ٹاور کی تعمیر کے کام کا آغاز ہوا، جس ٹاور کو شاہ پرستوں نے شاہ کی ولادت سے منسوب کرکے بنایا جانا تھا، اسے آیتہ اللہ خمینی کے صدسالہ یوم پیدائش کے موقع پر میلاد ٹاور کے نام سے تعمیرکیا جانے لگا اور اس کی تعمیر مکمل ہونے میں گیارہ سال لگے اوریہ ٹاور 2008ء میں مکمل ہوا۔
ہم نے اس ٹاور کے اس عجائب گھر میں جانا ہے جہاں ایران کی مشہور تاریخی شخصیات کے مجسمے رکھے گئے ہیں۔ یہ مجسمے مادام تساؤ کے میوزیم جیسے مجسمے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ یہ مجسمے ابھی بات کرنا شروع کردیں گے۔ یہ عجائب گھر ایک اور منزل پرواقع ہے۔ میں مادام تساؤ کے ایسے عجائب گھر ایمسٹرڈم اور برلن میں دیکھ چکا ہوں۔ کسی ایشیائی ملک میں ایسے کسی عجائب گھر کی موجودگی میرے لئے خوشی کی خبر تھی۔
اس عجائب گھر میں سب سے پہلی نظر جنرل قاسم سلیمانی کے مجسمے پڑتی ہے۔ جنہیں تین سال پہلے امریکہ نے عراق میں حملہ کرکے نشانہ بنایا تھا۔ میں ان دنوں لندن میں تھا اور اس روز صبح صبح سب سے بڑی بریکنگ نیوز یہی تھی۔ وہ قدس فورس کے کمانڈر تھے۔ انہیں بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر نشانہ بنایا گیا۔ وہ 2006ء کی لبنان اسرائیل جنگ کا مرکزی کردار بن کر اُبھرے تھے۔ اس پوری جنگ کے دوران اسرائیلی بری فوج لبنان کے کسی بھی علاقے میں داخل نہیں ہو سکی تھی اور اسی جنگ میں اسرائیلی بحریہ کو میزایئلوں کی بوچھاڑ میں بہت بڑا نقصان اُٹھا پڑا تھا۔ اس مومی عجائب گھر میں بہت سے ایرانی سائنسدانوں، انجینئروں، پروفیسروں، شاعروں اور سیاستدانوں کے مجسمے رکھے ہیں۔ ایک اور قابل ذکرمجسمہ ایران عراق جنگ کے ایام کے دوران ایران کے صدر علی اکبرہاشمی رفسنجانی کا بھی تھا۔اس مجسمے میں رفسنجانی اپنا مخصوص لباس کتھئی رنگ کا جُبہ، سفید کرتا اور سفید دستار زیب تن کئے ہوئے کرسی پر بیٹھے ہیں۔ اس مقام پر ان کی چند تصویریں بھی آویزاں ہیں اور قدآدم پردے پر لکھا قصیدہ آویزاں ہے، جو فارسی میں ہے اور جس میں علی اکبرہاشمی رفسنجانی کے فضائل و اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔ یہاں ہر مجسمہ کسی نہ کسی قابلِ ذکر شخصیت کا ہے ۔ مجھے اس میوزیم میں آیتہ اللہ خمینی یا موجودہ رہبر آیتہ اللہ خامنہ ای کا مجسمہ نظر نہیں آیا۔ یہاں دو مجسمے قابل ذکر ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ الگ الگ کیبن میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ اُن میں ایک ابنِ سینا اور دوسرا فردوسی کا ہے۔
ابن سینا کو بابائے طب کہا جاتا ہے۔
وہ ایک ہزارسال سے زیادہ عرصہ قبل 980ء میں ایران میں افشانہ کے مقام پر پیدا ہوا۔ اس کی ذہانت نے اپنے عہد اور آنے والے زمانوں میں دنیا کے کونے کونے کے انسانوں کو متاثر کیا۔ اسے شرف الملک، حجتہ الحق اور الشیخ الرئیس کے خطابات ملے۔
فردوسی کو آپ یونان کے ہومر اور روم کے ورجل جیسا بلکہ اُن سے کسی حد تک بڑا شاعر کہہ سکتے ہیں۔ فردوسی نے اپنی شاعری سے ایران کی جدید تہذیب کی بنیاد رکھی اور قدیم ایرانی ثقافت کا احیا کیا۔ میں نے منظر نقوی صاحب کے کان میں کہا کہ “ایران کے انقلاب نے شاہ ایران کے اقتدار اور اس کے جبرواستبداد کا خاتمہ کیا مگر اس نے ایران کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کو مسخ نہیں کیا۔ ابنِ سینا اور فردوسی کے مجسموں کو دیکھ کر کم از کم مجھے تو یہی احساس ہوتا ہے”۔
Advertisement
ادھر ہم ہیں کہ اپنی تہذیب و ثقافت اور تاریخ کی ہر نشانی کو مٹا دینے پر تُلے ہوئے ہیں، جیسے آزادی سے پہلے یہاں کوئی تہذیب سرے سے موجود ہی نہیں تھی، یہاں کوئی ثقافت بھی نہیں تھی اور تاریخ کا تو گویا وجود ہی نہیں تھا۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ
رفح آپریشن سے متعلق ہمیں خدشات ہیں، امریکی محکمہ خارجہ
کراچی: 15کروڑ سے زائد مالیت کی گیس چوری پکڑی گئی
ویٹ لفٹنگ میں پاکستان کا ابھرتا ہوا ستارہ محمد نعمان حکومتی توجہ کا منتظر
کچے میں ٹارگیٹڈ آپریشن سے متعلق اہم فیصلے متوقع، اجلاس طلب
’مون سون کے دوران ملک بھر میں معمول سے زائد بارشیں متوقع ہیں‘
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر