Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

آرمینیائی کیتھڈرل میں ایک اور تاریخی عجائب گھر

Now Reading:

آرمینیائی کیتھڈرل میں ایک اور تاریخی عجائب گھر

ہم چرچ سے باہر صحن میں آئے تو کچھ قبروں پر نظر پڑی۔ یہ قبریں عیسائی مذہب کے دونوں بڑے فرقوں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ہیں۔ ان میں سے ایک قبر انگریز فوجی افسرسر جارج میلکولم، دوسری قبرایک روسی قونصل اور بینکار الیگزنڈر ڈیکوور، تیسری قبر برطانوی حکومت کے ایجنٹ اور انگریز سرجن اینڈریو جیوکس کی ہے۔ اینڈریو جیوکس ایسٹ انڈیا کمپنی کا سرجن تھا۔ وہ 34 سال کی عمر میں 1908ء میں ایران آیا تھا۔ اُن دنوں ایران میں چیچک کی وبا پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے ایران میں آکر یہاں کے لوگوں کو چیچک کے ٹیکے لگائے۔ وہ اس مرض کا خاتمہ چاہتا تھا۔ اسے کسی حدتک کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ مگر دنیا سے چیچک کے مرض کا خاتمہ اس کی ایران آمد کے 72 سال بعد 1980ء میں ہوا۔
اینڈریو جیوکس نے 1914ء میں پیرس میں جارجینا ایورٹ نامی خاتون سے شادی کی۔ جیوکس کا 1921ء میں ہیضہ کے باعث اصفہان میں انتقال ہوا اور اسے اسی مقام پر دفن کیا گیا جہاں میں چرچ کے صحن میں اس کی قبر کے ساتھ کھڑا ہوں۔ یہ قبریں چرچ کے داخلی دروازے کے ساتھ ہی بنی ہوئی ہیں۔ صحن میں ایک طرف اُن آرمینیائی لوگوں کی یادگار ہے جن کی اس چرچ میں درج روایات کے مطابق پہلی عالمی جنگ کے دوران باقاعدہ منظم نسل کشی کی گئی۔ تاریخی روایات کے مطابق آرمینیا کے لوگوں کو شام کے صحرا کی جانب جبری مارچ پر مجبور کیا گیا جس کے نتیجے میں دس لاکھ آرمینیائی باشندے صحرا میں موت کا شکار ہوئے۔ اس صورتحال کا خاص شکار عورتیں اور بچے ہوئے۔تاہم ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں مختلف دعوے کئے جاتے ہیں۔ تاہم ان ہلاکتوں کو چھ لاکھ اور پندرہ لاکھ کے درمیان بتایا جاتا ہے۔ نسل کشی کی ان وارداتوں کا دورانیہ 1890ء اور 1910ء کا درمیانی عرصہ بتایا جاتا ہے۔ یہاں ایک بڑا سوال یہ ہے کہ پہلی عالمی جنگ کا دورانیہ تو 1914ء سے 1918ء تک کا عرصہ بتایا جاتا ہے۔ اس عالمی جنگ کا آغاز تو آسٹریا اور ہنگری کی سلطنت کی طرف سے سربیا کے خلاف اعلانِ جنگ سے ہوا تھا۔ آرمینیائی باشندوں کی مبینہ طور پر بڑے پیمانے پر نسل کشی کی واردات تو جنگ چھڑنے سے چار سال پہلے ہی ہو چکی تھی۔ اب میں اپنے سفر کے حال کو جنگ نامہ تو نہیں بنا سکتا۔ اس بارے میں حقائق جاننے کیلئے مجھے اور آپ کو تاریخ کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔
صحافی کچھ بھی کر رہا ہو وہ خبروں سے بے خبر نہیں رہتا، میں نے آرمینیا کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں جاننا چاہا تومعلوم ہوا کہ چاروں طرف سے آذربائیجان کے رقبے اور آبادی کے درمیان گھرے آرمینیائی باشندوں کے خطے نگورنوکاراباخ کے محاصرے میں کچھ نرمی پیدا کی جا رہی ہے۔ بعض اطلاعات یہ بھی ہیں کہ ایران، آرمینیا اور ترکی کی سرحدوں پر اسرائیل کی طرف سے کچھ کھچڑی پک رہی ہے۔ اب دیکھیں اس کھچڑی کو کون کھاتا ہے۔ لیکن جب آج سے 32 سال پہلے 1991ء میں نگورنوکاراباخ میں کھچڑی پکی تھی تو اس میں سے میخائیل گورباچوف کی گلاسنوسٹ اور پریسترائیکا کے ذریعے سے سوویت یونین اور کمیونزم کا انہدام نکلا تھا۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ تاریخ کے بڑے واقعات کا بِگل اسی خطہ میں بجتا ہے۔
میں پھر تاریخی واقعات اور صحافت کی طور لوٹ رہا ہوں، حالانکہ میں آپ کو اصفہان نصف جہان میں آرمینیائی چرچ کا حال سُنا رہا ہوں۔


Advertisement
چرچ سے باہر نکل کربالکل سامنے ایک اور عجائب گھر ہے۔ ہم باہر نکلنے کیلئے ایک درخت کے نیچے آ کھڑے ہوئے۔ منظر نقوی صاحب پہلے عجائب گھر اور چرچ کی تعمیر اور تزئین کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کر رہے تھے کہ علی فاطمی اور علی زین نقوی نے کہا کہ صحن کی دوسری جانب جو عجائب گھر ہے اسے بھی دیکھنا چاہیئے، ہم دونوں عجائب گھر دیکھنے سے تو انکار کر ہی نہیں سکتے لہذا ہم ان کے ساتھ ساتھ چل پڑے۔ اس کیتھڈرل کے صحن کا یہ حصہ بہت کشادہ ہے۔ ہم نے چرچ کے دروازے کی طرف تینوں قبروں پر ایک اچٹتی نظر ڈالی اور دوسرے عجائب گھر کے دروازے کی دوسری جانب ایک مجسمہ کے ساتھ آکر اسے دیکھنے لگے۔ کچھ دیر بعد جب ہم ایک ساتھ جمع ہوگئے اور اویس ربانی بھی آ گئے تو ہم اس دوسرے میوزیم کے دروازے پر پہنچ گئے جہاں دونوں جانب بڑے اہتمام کے ساتھ مجسمے رکھے ہوئے ہیں۔ ہم نو سیڑھیاں چڑھ کر دروازے پر پہنچے۔ میوزیم کے دروازے کی محراب خاصی طویل ہے۔ دروازے سے پیچھے مڑ کر دیکھیں تو یہاں تک لانے والی راہداری کے دونوں جانب کیاریوں میں گھاس اُگی ہے دائیں کیاری میں دو پودے اور دو درخت لگے ہیں۔ جبکہ بائیں کیاری نسبتاً چھوٹی لگتی ہے اور درختوں کے بارے میں بھی خودکفیل نہیں لگتی۔ ہم اندر آگئے ۔
میوزیم میں 1915ء کی آرمینیائی باشندوں کی نسل کشی کی یادگاریں نظر آتی ہیں۔ ہم نے اس نسل کُشی کا دورانیہ 1910ء تک ختم ہوتا ہوا پڑھا تھا یہ اب 1915ء کی بات ہو رہی ہے۔ لگتا ہے کہ عجائب گھر کی انتظامیہ ہم پردیسیوں کو الجھانے پر تُلی ہوئی ہے۔ اس عجائب گھرمیں تختیوں پر مندرجات تو ان حالات کا ذمہ دار عثمانیوں کو قرار دے رہے ہیں۔ یہاں نسل کُشی کا شکار ہونے والوں کی یاد میں قمقمے روشن کئے گئے ہیں۔ بعض نامور شخصیات کی تصاویر اور تعارف لکھ کر انہیں ان واقعات کے متاثرین بتایا گیا ہے۔ ان میں سے ایک آرمینیا کا شاعر، مصنف، سیاستدان، مورخ اور قانون دان گریکور زہراب ہے جو1861ء میں پیدا ہوا اور جولائی 1915ء میں گرفتار ہو کر قتل کردیا گیا۔ ایک اور نام سوقومون گئورگی سوقومونیان کا ہے جو آرمینیا کا پادری، موسیقار، شاعر، کمپوزر اور گلوکار تھا۔ وہ موت سے تو بچ گیا تھا مگر وہ کبھی نارمل زندگی نہ گزار سکا۔ باقی زندگی اس نے ذہنی امراض کے اسپتال میں گزاری۔ دانیال واروژان آرمینیا کا نامور شاعرتھا جو 1915ء میں مارے جانے والے لوگوں میں شامل تھا۔
اس عجائب گھر میں لوگ قطار میں لگ کر خوردبین سے کوئی چیز دیکھ رہے تھے۔ میں بھی تجسس کے باعث قطار میں لگ گیا۔ میری دیکھا دیکھی میرے دیگر ہمسفر بھی قطار میں آگئے۔ میرے آگے دونوجوان اور تین دوشیزائیں تھیں۔ میرے پیچھے دوتین آدمیوں کے بعد میرے دوست کھڑے تھے۔ مجھے وہاں بولی جانے والی زبان تو سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ لیکن خوردبین جو کچھ بھی دکھائے گی۔ اس سے کچھ نہ کچھ تو سمجھ میں آئے گا۔ لیکن جب میں نے خورد بین میں جھانکا تو مجھے ایک اسکیل نظر آیا۔ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ یہاں اس خوردبین کے ذریعے اسکیل دکھانے کا کیا مقصد ہو سکتاہے۔
یہاں اس عجائب گھر میں بے شمار دستکاری کی اشیاء رکھی ہوئی ہیں۔ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جواصفہان میں آرمینیائی باشندوں کی تاریخ کے علاوہ اُن کی تہذیب، ثقافت، بود وباش اور طرز زندگی کی شناخت کراتی ہیں۔
یہاں شاہ عباس اول کا 1606ء کا ایک فرمان رکھا گیا ہے جس کے مطابق بادشاہ نے نیو جُلفا کے قیام کی منظوری دی تھی۔
یہاں شاہ عباس صفوی اول اور اس کے جانشینوں کے ایسے متعدد فرامین رکھے گئے ہیں جن میں آرمینیائی باشندوں کے معاملات یا ان کی جائیدادوں میں مداخلت یا ان کے خلاف کسی عدالتی کارروائی کو ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ یہاں پر پہلی بار لگایا گیا پرنٹنگ پریس اور ایران میں چھپنے والی پہلی کتاب بھی رکھی گئی ہے۔
Advertisement
یہاں پادریوں کے چغے، بنیانیں، ظرف عشائے ربانی، کاسۂ پادری اور خیرو برکت کی علامتوں کا اظہار کرنے والی اشیا کو بھی ایک خاص اہتمام سے رکھا گیا ہے۔
یہاں کڑھائی کے نادر نمونے موجود ہیں۔ یہاں صفوی عہد کی یاد دلاتی نادر اشیاء دیکھ کر وہ پورا دور نظروں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔
یہاں پر ایسی یورپی پینٹنگز موجود ہیں جو آرمینیائی تاجر وہاں سے لے کر آئے۔
یہاں ایسی چیزیں بھی موجود ہیں، جن سے آرمینیائی آبادی کے قومی اور نسلی تشخص پر روشنی پڑتی ہے۔ علاوہ ازیں یہاں آرمینیائی تہذیب و ثقافت کی علامات ظاہر کرنے والی اشیاء بھی موجود ہیں۔ یہاں ایسی تصاویر، نقشہ جات، گرافکس اور دستاویزات بھی موجود ہیں جو 1915ء کی نسل کشی کے دور کی یاد دلاتی ہیں۔
اصفہان میں آرمینیائی باشندوں کے علاوہ جارجیا کے باشندوں بھی اچھی خاصی آبادی ہے۔ وہ صوبہ اصفہان کے علاقے فریدن میں رہتے ہیں۔ مگر ہم فریدن نہ جاسکے اور نہ اُن کے بارے میں کچھ جان سکے۔
اب شام کے پونے پانچ بج رہے ہیں۔ علی فاطمی پوچھتے ہیں کہ کیا آپ لوگ کھانا کھانا بھول گئے؟ ہم انہیں کہتے ہیں کہ وانگ کیتھڈرل جتنا دیکھنا ممکن تھا، ہم دیکھ چکے، میں نے اور منظر نقوی صاحب نے یہ سوچ کر ناشتہ کیا تھا کہا کہ اصفہان دیکھنے کے دوران ہم کھانے کو بھلائے رکھیں گے۔ تاہم اب ہم چرچ سے آرمینیائی باشندوں کے عقیدے اور ان کے طرزِ زندگی کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرکے باہر نکل آئے۔ ہم باغِ پرندگان، مچھلی گھر، چہل ستون محل اور اس چرچ کی یادوں کو سمیٹتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئے ۔ اب طے یہ ہوا کہ ہوٹل واپس نہیں جائیں گے بلکہ راستےمیں کسی ہوٹل میں کھانا کھا کر اصفہان کے پہاڑوں کی چوٹیوں پر جائیں گے۔ (جاری ہے)

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی سے ترک لینڈ فورسز کے کمانڈر کی ملاقات
ضلع خیبر میں سیکیورٹی فورسزکی کارروائی، 4دہشتگردہلاک
حکومت نےآئی ایم ایف کی ایک اورشرط پوری کر دی
جس نےبندوق اٹھائی اس سےسختی سےنمٹیں گے، میرسرفراز بگٹی
ترک بری افواج کے کمانڈر کو نشان امتیاز ملٹری دے دیا گیا
کینیا میں ڈیم پھٹنے سے ہلاکتوں کی تعداد 120 سے تجاوز کر گئی
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر