Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

طبیعت پل پر طبیعت بحال ہو گئی

Now Reading:

طبیعت پل پر طبیعت بحال ہو گئی

ہم میلاد ٹاور سے باہر نکل کر گاڑی میں آ کر بیٹھے ہی تھے کہ ہمارے دیرہ اسمعیل خان کے نئے دوست ڈاکٹر قیصر عباس نے اپنے کوچ کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ زین نقوی کی صورت میں ہم فارسی کے مترجم کے سلسلے میں خودکفیل ہیں اور انہیں یوں بھی اپنے ذاتی کئی کام تھے اور ان کے گھر میں اُن کے اپنے دیرے سے مہمان آئے ہوئے تھے۔ کچھ دیر گاڑی چلنے کے بعد ڈاکٹر قیصر عباس ہم سے رخصت ہو کر چلے گئے۔ ہم نے رضا سے پوچھا کہ اب کہاں روانگی ہے۔ ابھی تو سہہ پہر بھی نہیں ہوئی ، ابھی تو دن پڑا ہے۔ وہ بولے کہ میں اب آپ لوگوں کی طبیعت بحال کرانے کیلئے لے جا رہا ہوں۔ ہم نے انہیں اپنے بخیروعافیت ہونے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ بھائی! ہماری طبیعت بحال ہے۔ ہم میں سے کسی کی بھی طبیعت خراب نہیں ہے۔ رضا شعبانی ہماری وضاحتوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کہنے لگے کہ طبیعت بحال بھی ہو تب بھی کچھ دیر کیلئے پیدل چل لینے میں کیا ہرج ہے۔
ایک سڑک کے کنارے پر گاڑی رُکی تو رضا کہنے لگے کہ ہم نے دفاعی میوزیم جانا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو ہم اسی گاڑی میں بیٹھ کر چل سکتے ہیں یا پھر ہم ایران کے اس عجوبۂ روزگار طبیعت پُل کو پیدل عبور کرتے ہوئے بھی وہاں پہنچ سکتے ہیں۔ اب معلوم ہوا کہ رضا کو ہماری طبیعت کی فکر کیوں لاحق تھی۔ ہم سب گاڑی سے نیچے اُتر آئے اور طبیعت پُل کی جانب آگے بڑھنے لگے۔ رضا شعبانی بتانے لگے کہ یہ پُل پیدل چلنے والوں کیلئے بنایا گیا ہے۔ اس پُل کو ایران کی خاتون آرکیٹکٹ انجینئر لیلی عراقیان نے ڈیزائن کیا۔ رضا نے یہ بھی بتایا کہ اس پُل کو تعمیر کرنے والوں میں لیلی عراقیان کے علاوہ سحر یاسائی اور علی رضا بہزادی شامل تھے۔ لیلی عراقیان 1983ء میں ایران میں ہی پیدا ہوئیں۔ انہوں نے شہید بہشتی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کینیڈا کی یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا سے آرکیٹکٹ انجینئرنگ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ رضا شعبانی نے بتایا کہ 2005ء میں لیلی ایک تعمیراتی کمپنی دیبا تنسائل آرکیٹکٹ کی شریک بانی کے طورپرعملی زندگی کی دوڑ میں شامل ہوئیں ۔ انہوں نے تہران کے عالمی شہرت یافتہ پُل طبیعت پُل کو ڈیزائن کیا اور 2010ء میں اس پُل کی تعمیر کا آغاز کیا اور چار سال کی مدت میں 2014ء میں اس پُل کی تعمیر مکمل ہوئی۔اس ہُل پر دو ہزار ٹن اسٹیل اور10 ہزار کیوبک میٹر کنکریٹ استعمال کیا گیا۔
شعبانی بتانے لگے کہ اس پُل کی تعمیر میں اصل مسئلہ یہ تھا کہ اس کے بہت نیچے جو دو رویہ شاہراہیں گزرتی ہیں۔ یہ دونوں شاہراہیں دو سرسبز وشاداب پہاڑی سلسلے کو تقسیم کرتی ہیں۔ جن کی چوڑائی بہت زیادہ ہے۔ ان کے اوپر سے پُل کو گزارا جانا تھا۔
نیچے پہاڑی جنگلات اور شاہراہوں کے حُسن کو بھی برقرار رکھا جانا تھا۔ پھر طبیعت پُل کیلئے ایسے ٹنل بنائے گئے جن کی موجودگی میں ایک کنکر بھی دو رویہ شاہراہوں میں سے کسی شاہراہ کے کسی ایک کونے پر بھی نہیں گرسکتا تھا۔
اس پُل کی لمبائی 270 میٹر ہے مگر یہ پُل دیکھنے میں ایک عجوبۂ روزگار لگتا ہے۔ اس کے تخلیقی حسن کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ پُل صرف پیدل چلنے والوں کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ اس پر کسی قسم کا ٹریفک نہیں چل سکتا۔ اس پُل کے حسن کے انگنت زاویے ہیں۔ یہاں سینکٹروں مرد، خواتین اور بچے چہل قدمی کرتے نظر آتے ہیں۔ پُل کے دائیں جانب بوستانِ آب و آتش کا منظر کافی دور سے ہی بہت دلفریب لگتا ہے۔ طبیعت پُل سے اس باغ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ آب و آتش پارک کو ابراہیم پارک بھی کہا جا سکتا ہے۔ گویا آگ، آتش نمرود کی نمائندگی کرتی ہے اور آب اس پانی کی نمائندگی کرتا ہے جس نے آتش کو بجھا کر سرد کر دیا تھا۔ تالاب سے پانی پوری قوت سے اچھلتا ہے اور ایک بہت خُوبصورت منظر پیش کرتا ہے۔ یہ ابراہیم پارک 24 ہزار مربع میٹر رقبہ پر قائم ہے۔ اس پارک کا افتتاح 27 جون 2009ء کو تہران کے میئر محمد باقر قلیباف نے کیا تھا۔ اس پارک کے چہار جانب آگ کے شعلے مینار کی مانند اوپر کو اُٹھتے ہیں جن کی لمبائی 20 سے 26 فٹ ہوتی ہے۔

Advertisement
طبیعت پُل کا آغاز ایک لائٹ ہاؤس سے ہوتا ہے۔ ایسے لائٹ ہاؤس بندرگاہوں پر سمندری جہازوں کی رہنائی کیلئے بنائے جاتے ہیں۔ ہم جب کیماڑی سے کشتی میں بیٹھ کر منوڑہ جاتے ہیں تو ایسا ہی لائٹ ہاؤس دیکھتے ہیں، جہاں سے پھوٹنے والا روشنی کا دھارا بہت دور سے ہی نظر آجاتا ہے۔ مگر یہاں طبیعت پُل کے آس پاس یا دور دور تک کوئی سمندر نہیں ہے تو پھر یہاں لائٹ ہاؤس کا کیا کام ہے۔ لگتا ہے کہ یہ طبیعت پُل ہی انسانی کاریگری اور آرٹ کا ایک سمندر ہی ہے۔ اور اسے دیکھنے کا آغاز ایک لائٹ ہاؤس سے ہی ہوتا ہے۔
یہ پُل صرف پیدل چلنے والوں کیلئے بنایا گیا ہے۔ ہم نے اگرچہ اس سے گزر پُل کی دوسری جانب جانا ہے مگر اس پُل کی تعمیر کا بنیادی مقصد اسے عبور کرنا نہیں بلکہ یہاں پر آنا اور اس پُل پر پیدل چلنا اور یہاں تفریح کرنا ہی اس کی تعمیر کا بنیادی مقصد ہے۔ پُل کثیرالمنزلہ اورکثیرالجہات ہے۔ کبھی یہ پُل تنگ ہوجاتا ہے، کبھی پھیل جاتا ہے۔ کبھی چلنے والے کو اوپر کی سمت ایک اور راہداری پر لے جاتا ہے۔ کبھی نشیب میں چلا جاتا ہے۔کبھی درمیان میں ایک بڑے پاٹ کے ساتھ دریا کی طرح بہتا محسوس ہوتا ہے۔ میں نے دریائے سندھ کو تونسہ سے گُڈو بیراج تک اور وہاں سے کوٹڑی تک اپنے پورے پھیلاؤ کے ساتھ بہتے دیکھا ہے مگر جب اس سے شاخیں نکلتی ہیں تو اس کا منظر ہی کچھ اور ہوجاتا ہے۔ جب کاہا، چھاچھڑ، وڈور، سنگھڑ اور گاج کا مچلتا، اٹھکھیلیاں کرتا دریائے سندھ کی وسعتوں کی جانب بڑھتا ہے تو کئی اور مناظر بناتا نظر آتا ہے۔ یہ طبیعت پُل بھی ہمارے دریا کی طرح ہے، کہیں جام پور اور جتوئی کے درمیان پورے پھیلاؤ کے ساتھ اور کہیں گلگت کے پہاڑوں کے درمیان بہت ہی تنگ گھاٹیوں کے میں سے دم سادھے درویش اور سادھو کی طرح یوں گزرتا ہے جیسے یہ کوئی بہت چھوٹی سی نہر بن گیا ہو۔ طبیعت پُل کے بھی اپنے مزاج، اپنے مُوڈ اور اپنے ہی انداز لگتے ہیں۔ پُل کے کناروں پر لوہے کے بڑے بڑے پائپ لگا کر ریلنگ تیار کی گئی ہے جہاں مُوٹی تاروں کے جال لگا کرسکیورٹی باڑ لگائی گئی ہے اور یہ باڑ بیس فٹ بلند رہی ہوگی۔ اس باڑ اور ان تاروں نے پُل کے حُسن کو متاثر نہیں کیا بلکہ دوچند کر دیا ہے۔ پُل پر تختے لگے ہیں۔ آپ تختوں پر چلتے ہوئے سفر کرتے ہیں۔ کہیں کہیں یہ تختے پختہ فرش میں بدل جاتے ہیں اور کہیں پر سڑک آجاتی ہے۔ مگر پُل پُل ہی رہتا ہے، یہ فرش نہیں بنتا اور یہ سڑک بھی نہیں بنتا۔ یہاں پر آنے والوں کے سستانے کیلئے بنچیں بھی موجود ہیں۔ آپ تھک جائیں تو کسی بنچ پر بیٹھ جائیں۔ پُل پر کہیں کہیں چھت بھی ڈالی گئی ہے۔ اگر آپ کو دھوپ لگ رہی ہے تو کچھ دیر کیلئے چھاؤں میں آ جائیں۔ نیچے ، بہت نیچے جنگل ہے، جنگل کے نیچے دو رویہ سڑکیں ہیں آنے اور جانے کیلئے، سڑکوں کے ارد گرد جنگل ہے، سڑکوں کے درمیان بھی جنگل ہے۔ پھر آگے اور دو رویہ سڑکیں ہیں مگر پُل اپنی جگہ پر قائم ہے۔ پُل پر چلتے چلتے ایک بڑی چوکور چورنگی آجاتی ہے محض ایک دائرہ بنانے کیلئے، یہاں سے کوئی اور راستے نکلتے بلکہ یہاں پر آکر پُل اپنے آپ کو دائرے میں پھیلا دیتا ہے۔ یہاں بنچیں پڑی ہیں، ان بنچوں پر بیٹھ کر دم بھر کیلئے سستا لیں۔ یہ پُل ایک راز کی مانند، ایک قصے کی طرح، ایک کہانی بن کر تہہ در تہہ اپنا اظہار کرتا ہے۔ آپ پُل کی تہہ میں آکر کیفے اور ریسٹورنٹس کے سامنے آجاتے ہیں جہاں باقاعدہ میزیں اور کرسیاں لگی ہیں۔ یہاں مقامی اور غیرمقامی انواع و اقسام کے کھانے اور مشروبات موجود ہیں۔ آپ ان ریسٹورنٹس سے نکل کر سیڑھیاں چڑھ کر پُل پر آجائیں، جہاں آپ کیفے اور ریسٹورنٹس میں تھے وہ بھی طبیعت پُل ہی تھا اور جہاں آپ واپس آئے ہیں یہ بھی طبیعت پُل ہی ہے۔ یہاں پر بُھول بھلیاں ہیں۔ لیلی عراقیان نے اسے ایک قصہ بنا دیا جو سردی یا گرمی کی تاریک راتوں میں ہر رات کی الگ قسط کے طور ایک نئے انداز میں سامنے آتا ہے اور الف لیلی کی داستان بن جاتا ہے اور یہ پُل داستان ہی تو ہے۔ طبیعت پُل پر پودوں کی کیاریوں کی ہریالی اور ان کیاریوں میں اُگے پھول اپنی ہی بہار پیش کرتے ہیں۔ سامنے آپ نظریں دوڑائیں، آپ کو تہران کے پہاڑوں کی چٹیل چوٹیاں نظر آئیں گی۔ اتنی بلندوں پر سبزہ بھی اُگتے ہی مُرجھا جاتا ہے۔ تاہم ان پہاڑوں کے دامن کی ہریالی دیکھنے والوں کے دلوں کو موہ لیتی ہے۔ طبیعت پُل کی تعمیر 2014ء میں مکمل ہوئی اور 2016ء میں اسے بہترین تعمیرات کا آغا خان ایوارڈ ملا۔ ویسے یہ ایوارڈ بہت پہلے ہمارے ضلع رحیم یارخان کے قصبے بُھنگ کی مسجد کو بھی دیا جاچکا ہے۔
ہم آگے بڑھ رہے ہیں، ہمیں اس پُل کو عبور کرکے اس کی دوسری جانب جانا ہے۔ ہمیں انقلاب اور مقدس دفاع کے میوزیم کی طرف جانا ہے۔ اس میوزیم کو دیکھتے ہوئے انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ
رفح آپریشن سے متعلق ہمیں خدشات ہیں، امریکی محکمہ خارجہ
کراچی: 15کروڑ سے زائد مالیت کی گیس چوری پکڑی گئی
ویٹ لفٹنگ میں پاکستان کا ابھرتا ہوا ستارہ محمد نعمان حکومتی توجہ کا منتظر
کچے میں ٹارگیٹڈ آپریشن سے متعلق اہم فیصلے متوقع، اجلاس طلب
’مون سون کے دوران ملک بھر میں معمول سے زائد بارشیں متوقع ہیں‘
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر